264

سرخ لائینز اور رشید یوسفزئی

دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں کچھ سرخ لائنیں ہوتی ہیں جنہیں پار کرنے پر قانون شدید حرکت میں آتا ہے اور چشم وزدن میں بندہ غائب ہو جاتا ہے، ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ فرسٹ ورلڈ ممالک میں قانون چونکہ بہت مضبوط ہوتا ہے اور تمام ادارے بشمول صدر قانون کے نیچے ہوتے ہیں اسلئیے گرفتار شدہ بندہ جلد یا بدیر عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے، اور عدالت اسے قرار واقعی سزا دے دیتی ہے اور دوسرے لوگ اس سے ڈر جاتے ہیں اور آئندہ کسی کی ایسا کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔

امریکہ خود جو ایک بڑا اور ترقی یافتہ ملک ہے، اور تمام دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیوں کو کنٹرول کرتا ہے اور انہیں فنڈنگ دیتا ہے، اور مرضی کے مطابق ان سے فریڈم آف ایکسپریشن کے نام پر واویلہ بھی کرواتا ہے، جب اس نے تمام دنیا سے بندے اٹھائے تو انہیں امریکہ لانے کی بجائے گوانتانامو جزیرے میں رکھا اور انکے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا، تمام دنیا ان واقعات سے واقف تھی لیکن کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو یہ جرات نہ ہوئی کہ انکے لئے آواز اٹھاتا، بقول امریکہ کے ان لوگوں کی وجہ سے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے، اسلئے ان پر عام قوانین لاگو نہیں ہوتے۔

عافیہ صدیقی کے کیس سے سب واقف ہیں، اس پر بھی امریکی فوجیوں پر بندوق اٹھانے کا الزام ہے اور اسے عمر قید ہوئی ہوئی ہے اور اس ایشو پر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں، اور بولیں بھی تو کیسے فنڈز بند ہوسکتے ہیں۔

کچھ سال پہلے ڈنمارک میں ایک ڈینش نیشنل فلسطینی، جسکی بیوی ڈینش گوری تھی، اور وہ ہر مہینے فلسطین میں موجود کسی انسانی فلاح کی تنظیم کو پیسے بھیجتا تھا، اسے ایک طویل عرصہ ایجنسیوں نے غائب کر دیا تھا اور اسکی ڈینش بیوی تمام عرصہ مظاہرے کرتی رہی تھی اور طویل عرصے بعد جب اسے چھوڑا گیا تو اس نے میڈیا کو کچھ بتانے کی بجائے بقیہ زندگی خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔

ابھی حال ہی میں سعودی عرب حکومت نے اپنے مخالف صحافی کو ترکی کی سرزمین ہر اپنی ایمبیسی میں قتل کیا، اسکی لاش کے ٹکڑے کئیے اور ان پر کیمیکل لگا کر غائب کر دیا، ساری دنیا کو ان واقعات کا پتا چل گیا آڈیو ٹیپ تک حاصل کر لی گئی لیکن بعد میں کچھ نہ ہوا، نہ تو انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آئیں اور نہ دنیا کے دوسرے ممالک نے احتجاج کیا، کیونکہ یہاں پر مفادات کا معاملہ تھا، امریکی صدر نے بھی پریشر کے باوجود سعودی عرب کو کلین چٹ دے دی کیونکہ اربوں ڈالرز کا معاملہ تھا، یہاں تک کہ سعودی عرب نے اپنی تحقیقات میں بھی کچھ لوگوں پر الزام لگا کر انصاف کرنے کی کوشش کی لیکن حقیقت میں یہ دنیا کو پیغام تھا کہ ہم اپنے مخالفین کا یہ حال کرتے ہیں، آئندہ مخالفین خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں اپنی حدود میں رہیں اور سرخ لائن کراس نہ کریں نہیں تو۔۔۔۔۔

یورپ امریکہ کینیڈا میں رہنے والا کوئی بھی انسان اگر سرے عام ہولوکاسٹ کو ماننے سے انکار کرے اور اس پر اپنے کمنٹس دے تو فوراً پولیس حرکت میں آئے گی اور وہ بندہ غائب ہو جائے گا، یہاں کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو فریڈم آف ایکسپریشن یاد نہیں آئے گا۔

جرمنی اور بالخصوص تمام یورپ میں اگر کوئی نازی ازم کو پروموٹ کرے تو بھی ایجنسیاں فوراً حرکت میں آئیں گی اور وہ انسان منظرعام سے غائب ہوجائے گا۔

تمام دنیا کی طرح ایسے ہی پاکستان میں بھی کچھ سرخ لائنز ہیں، جنہیں کراس کرنے والا ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر غائب ہوسکتا ہے، ان سرخ لائنز میں دو قومی نظریہ، قائداعظم، علامہ اقبال، مذہب اسلام اور پاکستانی افواج پر بدنیتی پر مبنی ایسی تنقید بھی شامل ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی سالمیت کو خطرہ ہو جائے، ایسی صورت میں ایجنسیوں کا حرکت میں آنا یقینی امر ہے۔ ایسے لوگوں کو جلد یا بدیر عدالت میں پیش کرنا چاہئیے لیکن پاکستان کا قانونی نظام اس قابل نہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کر کے سٹیٹ مخالف ملزمان کو یہاں پیش کیا جائے کیونکہ ایسی صورت میں عدالت انہیں باعزت بری کردیتی ہے۔

ابھی دو دن پہلے آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کچھ لوگ اس نہج پر نہ جائیں کہ وہ ایسی سرخ لائنز کراس کر جائیں جن سے پاکستانی سالمیت کو خطرہ ہو اور لاء اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیز کو حرکت میں آنا پڑے۔

گزشتہ رات سوشل میڈیا پر پاکستانی سٹیٹ، مذہب اسلام، اور پاک افواج کے خلاف انتہائی زہریلا مواد لکھنے والا رشید یوسفزئی گرفتار ہوگیا تو سوشل میڈیا پر اسکے چاہنے والوں نے انصاف کیلئے ایک طوفان برپا کردیا، اور آج سارا دن کچھ ناسمجھ لوگ پاکستان میں فریڈم آف ایکسپریشن کی صلبی پر تنقید کرتے رہے، اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان میں کوئی بندہ اپنے حقوق کی بات کرے تو اسے لاپتہ کردیا جاتا ہے، تنقید کرنے والے ایسے لوگوں میں کئی امریکہ یورپ میں بھی مقیم ہیں، ایسے لوگوں سے میری درخواست ہے کہ ذرا سوشل میڈیا پر ہولوکاسٹ کی مخالفت اور نازی ازم کو پروموٹ کر کے دکھائیں پھر دیکھیں گے انہیں کتنی فریڈم آف سپیچ ملتی ہے۔ذیل میں رشید یوسفزئی کی پوسٹ کا عکس پیش کیا جاتا ہے، جس کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسا انسان غائب ہونے کے لائق ہی ہے اور پہلے کیا ایجنسیاں سوئی ہوئی تھیں، جو نوبت یہاں تک آ گئی کہ یہ سرے عام زہر اگلنے لگا، ایسے لوگوں کو لمبا غائب کرنے کی بجائے انکی اتنے اچھے طریقے سے مہمان نوازی کرنی چاہئیے کہ بقیہ زندگی اللہ اللہ کرتے گزاریں اور انکا نام تاحیات ای سی ایل میں ڈال دینا چاہئیے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں