242

جل دھارا

وقت ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جاتا ہے اور حالات ایک جل دھارا کی طرح ہیں۔ وقت کسی کے لئے رکتا نہیں ٹھہرتا نہیں۔ اس کی قدر کو سمجھنا ضروری ہے۔ ماضی تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ تاریخ سے سبق حاصل کرنے والی قومیں حال کو بہتر انداز میں استعمال کر کے اپنے مستقبل کو سنوارتی ہیں۔ وہ قومیں جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں وقت ان کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے اور ان کا نام و نشان تک مٹا دیتا ہے۔ قوم ہو یا فرد اپنے کردار اور کام سے پہچانا جاتا ہے۔ آج بہت سی قومیں ایسی ہیں جنہوں نے ماضی سے سبق حاصل کیا اور اپنی محنت سے دنیا میں اپنے آپ کو منوایا۔

چین اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اپنی زبان اور ثقافت کو ترجیح دینے والی قومیں ہی اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کرتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کو شکست سے دو چار کیا۔ اس کے دو بڑے شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر جوہری حملہ کیا۔ اس عظیم نقصان اور زلت آمیز شکست کے بعد اس قوم کے دانشوروں نے اپنے آپ کو ایک احتسابی عمل سے گزارا اور ترقی کیلئے کچھ اصول وضع کئے جن کی بدولت یہ قوم دنیا میں آپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اپنے آپ کو صنعتی، معاشی اور تجارتی لحاظ سے ایک طاقت بن کر دکھایا۔ یہ ناممکن کس طرح سے ممکن ہوا اس کا تجزیہ مسلمانوں اور پاکستان کی لیڈرشپ کے لئے ضروری ہے جو کہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول کر ایک ابتلائی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

قرآن کریم وہ کتاب ہے کہ جس قوم نے بھی اس کے معاشرتی اصولوں کو اصلاحی مقاصدِ کے لئے استعمال کیا فلاح اور ترقی سے سرفراز ہوئی۔ جاپانی معاشرے میں جھوٹ ،کسی کا حق مارنے، وقت کی پابندی، بھٹکے ہوئے لوگوں(سیاحوں)کو راستہ بتانا یہ سب ان کے فرائض تصورکئے جاتے ہیں۔جاپان کےلوگ مجموعی طور پرحلیم الطبع ہیں۔ قانون کی پاسداری کرنا اس قوم کا خاصہ ہے۔ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ سب اسلامی اصول ہیں جو اس قوم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ارتقائی مراحل طے کرنے کے لئے اپنائے۔ آج جاپان صنعتی انقلاب کی طرف گامزن ہے اور ایک BRAND NAME بن چُکا ہے۔ جاپان فی کس آمدنی کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام پر ہونے کے باوجود عشرت پسند قوم کی حیثیت سے نہیں پہچانی جاتی۔ خوشحالی عام ہونے کے باوجود گھروں میں ملازم نہیں رکھے جاتے۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی مثبت تعمیر کیلئے جاپان میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جاپان میں پہلی جماعت سے چھٹی جماعت تک بچوں کو اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کو معاشرتی معاملات اور لوگوں سے برتاؤ کے عملی طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ جاپانی معاشرے میں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے استاد کی عزت نہیں کی برباد ہوئی۔ آج وہ ممالک جہاں اساتذہ کو بے عزت کیا جاتا ہے جس میں پاکستان سرفہرست ہے۔ ملکی تعلیمی ترقی اسی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے کہ اساتذہ کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ اساتذہ کی بے توقیری ارباب اختیار کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے کو دوبارہ روحانی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ جاپان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر جاپانی زبان میں مرتب شدہ ہے۔ سچ ہے کسی بھی ملک کی تعلیمی ترقی اس کی قومی زبان سے مشروط یے۔

اب چین کے معاشی اور صنعتی انقلاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ایک دور تھا جب چینی سرزمین کو افیونیوں کی سرزمین کہا جاتا تھا۔ 80 کی دہائی تک تمام تر ترقی کے باوجود پورے ملک میں کوئی ارب پتی موجود نہیں تھا۔ اس کی وجہ کرپشن تھی جو پورے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چُکی تھی۔ چین میں اس کے لئے کڑے اصولوں پر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا۔ چین میں ہر طرح کی بدترین کرپشن موجود تھی۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں تھا جو کرپشن سے پاک ہو۔ چین میں اہم عہدوں پر تعینات افراد کو کرپشن ثابت ہونے پر گولی مار دی گئی۔ احتساب کا یہ سلسلہ اب تک بلا تفریق جاری یے۔ وسائل کے منصفانہ اور کرہشن سے ہاک تقسیم کے سبب ترقی کی بدولت اس وقت چین میں 125 ارب پتی موجود ہیں ۔ وہ قومیں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں جن میں کرپشن کا ناسور موجود ہو۔

چین کی معاشی ترقی کی ایک اور وجہ کاروباری قرضوں کی فراہمی ہے۔ سالانہ ترقیاتی اہداف کو پورا کرنے کےلئے بہت سے اقدامات مسلسل جاری ہیں جس کی وجہ سے عام شہری کا معیار زندگی بلند کرنے میں میں بہت مدد ملی۔ ظاہر ہے جب لوگوں کے زرائع آمدن میں اضافہ ہو گا تو وہ خرچ بھی کریں گے۔ معاشی نمو میں اضافہ ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع میانوالی کا ایک قصبہ کالاباغ ہے۔ یہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تحصیل عیسیٰ خیل کا حصہ ہے۔ یہ کالاباغ ڈیم کا مجوزہ مقام بھی ہے۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ، اس کی ضرورت، فوائد اور نقصانات پر آج کی نوجوان نسل کو آگاہی ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر پچھلی چھ دہائیوں سے سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ آج تک سنجیدگی سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیا پاکستان کی لیڈرشپ قومی مفاد کے حامل منصوبوں پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے نااہل ہے؟ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

پاکستان اسی کرپشن کی وجہ سے انتہائی کمزور دور سے گزر رہا ہے۔ ضرورت احتساب کا ایسا سلسلہ شروع کرنے کی ہے جو بلا تفریق جاری رہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افراد اس احتسابی عمل سے بچ نہ پائیں۔ کرپشن کی وجہ سے بہت سے قابل عمل منصوبے نا قابل عمل قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کر کے ترقی کے کچھ قومی اصول وضع کرنے ہونگے ورنہ کرپشن کی یہ جل دھارا بہتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں