281

درجن میں تیرہ اور غلیظ دولت۔

ڈھٹائی میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہو تو بندہ بڑے سے بڑا جرم کرکے بھی پوچھتا ہے’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ یہ تو حکمران تھے، ان کی تو فکری چمگادڑوں نے بھی چمڑے کے سکے چلانے سے دریغ نہ کیا۔ کیچوے بھی کوبروں کی اداکاروں کررہے تھے لیکن سچی بات ہے رونق خوب تھی جس کے بغیر میں خاصا اداس ہوں۔ کہاں گئی میری فیورٹ چنڈال چوکڑی اور چیخے؟ پانچ کے پانچ فاضل جج متفق لیکن یہ بھی رج کے ڈھیٹ اور وہ بھی جو تکنیکی قسم کی موشگافیوں کی ماکیٹنگ میں مصروف ہیں لیکن بساط تو تاحیات الٹ چکی۔ ریموٹ پہ کتنی دیر مینڈکوں کو متحد رکھا جاسکتا ہے جبکہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

ری ایکشن نہ ہونے کے برابر جیسے کوئی بچہ کسی ڈائنوسار (Dino Sour) کو گدگدی کررہا ہو۔ جن کی جلا وطنی پر کوئی نہ بولا ان کی نااہلی پر کون روئے لیکن ایک منظر میرے لئے ہوشربا تھا۔ عام تاثر یہ ہے کہ کاروباری لوگ، تاجر طبقہ ان کا ہمدرد ہے لیکن میں ٹی وی پر سٹاک ایکسچینج کاجشن دیکھ کر’’انگشت بدنداں‘‘ سے بھی آگے نکل گیا۔ لوگ والہانہ طور پر دیوانہ وار نعرے لگارہے تھے جیسے کسی آکٹوپس یا آدم خور سے نجات مل گئی ہو، اگر کاروباری حلقوں میں یہ حال ہے تو باقی کیا رہ گیا۔ مجھ سے اب تک یہ منظر ہضم نہیں ہورہا کہ سٹاک ایکسچینج بھی اس چیخ پر خوش تو پھر ان سے راضی کون ہے سوائے ان پھڑیوں کے جن کے مفادات بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے ساتھ وابستہ تھے۔
حالات نے ان کو مظلومہ بینظیر بھٹو یاد دلادی ہے۔ کبھی اس کے لئے لوگ پکارتے تھے’’یااللہ یا رسول بینظیر بے قصور‘‘ کل میں نے کچھ نونیوں کو منمناتے سنا’’یااللہ یا رسول نواز شریف بے قصور‘‘حالانکہ اس بے قصور کے سر پر متفقہ فیصلہ کا کوہ گراں ہے۔ یہاں تک کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برطانیہ نے بھی کہہ دیا کہ برطانیہ میں شریف خاندان کے اثاثے پاکستان کو واپس کئے جائیں۔ ویسے غور کریں کیسا ریکارڈ ساز اہل، نااہل ہے جس نے کوئی گھر نہیں چھوڑا۔ کبھی صدر کے ہاتھوں فارغ، کبھی فوج کے ہاتھوں چھٹی اور اب عدلیہ کے ہاتھوں نااہل لیکن گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تو کہیں نہیں گئی۔
اب کون ہے جو ایک ہی منصوبہ کا کئی کئی بار فیتہ کاٹے گا اور ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ جیسے بھولے بسرے محاورے سنائے گا؟ ہے کسی میں اتنا ٹیلنٹ کہ باوزن شعروں کو اتنی آسانی اور روانی سے اس طرح بے وزن کرسکے۔ اقامے وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے نکل گئے، اب کوئی ڈنگ ٹپائو نظام سقہ آئے گا جس کے بعد’’چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ منہاج القرآن کی لاشوں کا بوجھ اٹھائے وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے تو منظر وہ بھی دیکھنے لائق ہوگا۔ ایک کندھے پر لاشوں، دوسرے کندھے پر وزارت عظمیٰ کا بوجھ۔اللہ کرے عمران خان کا دھیان ماڈل ٹائون کیس کی طرف نہ جائے جو ابھی بند بھی نہیں ہوا کہ یہاں تو جو بند تھے وہ بھی کھل گئے۔ ایسا ہوگیا تو میڈیا مینوفیکچرڈ گڈ گورننس جگہ جگہ سے فریکچر بھی ہوسکتی ہے۔ 
مغلوں پہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جس شہزادے کو بادشاہ بننے کی درخواست کی جاتی وہ بیچارہ ہاتھ جوڑ کے بھاگ نکلتا۔ چنڈال چوکڑی دورغ گوئی میں ماہر ہے۔ تازہ ترین جھوٹ یہ کہ’’واپس آئیں گے‘‘ اور فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کریں گے کیونکہ ان کے تحفظات ہیں یعنی’’ماننے‘‘ کا دودھ تو دے رہے ہیں لیکن تحفظات کی مینگنیاں ڈال کر تو خیر ہے، اتنی چھوٹ تو ملنی چاہئے۔ ان کالے بکروں کا افسوس ہے جو کسی کام نہ آئے کہ اصلاً اصولاً یہ بکروں کا کیس ہی نہیں تھا۔ جرائم اتنے تھے کہ انہیں دو چار ہزار کالے ڈائینو سارز کا صدقہ دینا چاہئے تھا تو شاید بلا ئیں ٹل جاتیں لیکن ایک بلا کی پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں تھی جو بنی گالہ میں رہتی اور وزیر اعظم کھاتی ہے۔
بچپن میں یہ بے معنی سا’’شعر‘‘ گایا کرتے تھے؎ پھجا بھی آگیا، پھینی بھی آگئی مرچیں بھی آگئیں، چینی بھی آگئی کہتے ہیں’’ن لیگ ا یک حقیقت ہے‘‘ تو اس میں شک کس کافر کو ہے؟لیکن جانی پہچانی آمدنی سے کئی گنا زیادہ اثاثے بھی تو حقیقت ہیں، جھوٹا بیان حلفی بھی تو حقیقت ہے، جعلی دستاویزات اقامے بھی تو حقیقت ہے، کیلبری فونٹ بھی تو حقیقت ہے…….انگنت حقیقتیں منتظر ہیں۔ ’’حدیبیہ‘‘ کی حدود کا تعین بھی باقی ہے ورنہ طبیعت کی خرابی سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری تک نہ پہنچتی۔ 
پہلی بار چیئرمین’’نیب‘‘منی لانڈرنگ اور آمدنی سے زیادہ اثاثوں والے کیس پر اثر انداز نہ ہوسکیں گے تو اس کے مہلک اثرات کا اندازہ لگانے کے لئے فیثا غورث ہونے کی ضرورت نہیں۔ شریف خاندان پر بینک اکائونٹس سیل ہونے اور اثاثوں کی ضبطی کی تلوار علیحدہ لٹک رہی ہے۔ نیب آرڈیننس کے سیکشن 10اے کے تحت کرپشن میں ملوث تمام افراد کو14،14سال قید بول گئی تو ٹانگے اور لینڈ کروزریں کچہری سے خالی نہ آئیں گی تو کیا ہوگا؟ اگر ضمیر کی سماعت مکمل طور پر جواب نہ دے گئی ہو تو ہر غیور، باشعور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برطانیہ کے ڈائریکٹر آف پالیسی ڈنکن ہمیس کی یہ بات غور سے سنے کہ غیر ممالک سے لوٹی گئی دولت سے برطانیہ میں بنائے گئے اثاثے ان ممالک کو واپس لوٹانے کے لئے فوری کارروائی کی جائے،جب تک برطانوی حکومت اس کام کے لئے ضروری اقدامات نہیں کرتی، تب تک برطانیہ دنیا بھر سے لوٹی گئی غلیظ دولت کا محفوظ ٹھکانہ بنارہے گا۔
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)

اپنا تبصرہ بھیجیں