255

عشق رسول اور بد اخلاقی کا اجتماع کیسے ممکن ہوا؟

میں بریلوی ماحول میں پیدا ہوا اور بچپن گزرا، دیوبندیوں سے دینی تعلیم حاصل کی، ندویوں کی فکر سے متاثر ہوا، تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگایا، مجاہدین کے ساتھ عسکری تربیت حاصل کی، کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا۔ اس تنوع سے مجھے ہر ایک طبقے کی نفیسات اور مزاج سے آگاہی دی اور اسی لئیے میں اپنے مشاہدے کی بنا پر تجزیہ کر پاتا ہوں۔


دھرنے میں خصوصًا اور معاشرے میں عمومًا پائی جانے والی بد اخلاقی کے ساتھ عشق رسول کے جو مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں اس کو دیکھ کر اکثر حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔ دودھ اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے میلاد کی محفلیں سجانے میں پیش پیش ہوتے ہیں، بھائی بہنوں کی جائیداد دبا لینے والے نعت شریف کی محفلیں لگاتے ہیں اور نعتیں سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور آبدیدہ ہونے کے بعد بھی زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ ‘اولیا’ء،’ قطب’ ،’ابدال’ اور عوام، ماں بہن کی گالیوں کے اول و آخر نعرہ رسالت لگاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی ﷺ کے اعلٰی اخلاق کی گواہی ان کے دشمن بھی دیتے تھے، جن کے اخلاق کی کی عمدگی کا اعتراف خالق کائنات نے خود فرمایا، اور جن کا اسوہ حسنہ ان کے ماننے والوں کے لیے کامیابی اور نجات کا واحد ذریعہ قرارد دیا گیا۔ ان کے نام لیوا ان کے ہی نام پر یہ سب بھی کرسکتے ہیں! لیکن اگر اس خاص مزاج کے تشکیلی عوامل جان لیے جائین تو حیرت ختم ہو جائے گی، البتہ افسوس بلکہ صد افسوس اپنی جگہ بہر حال رہے گا۔

بریلوی طبقے میں عشق رسول، ایک خاص مابعد الطبعیاتی تصور کا حامل ہے۔ آیاتِ قرانی اور احادیث کی ادھوری اور غلط ترجمانی، خصوصًا اولیاء اور مشائخ کے خود ساختہ قصوں اور خوابوں اور الہام کے ذریعے عشقِ رسول کا ایک خاص مفہوم اور اس کے مضمرات عوام کو ہر بریلوی مسجد اور خانقاہ سے باور کرائے جاتے ہیں۔ عشق رسول کی اس خاص تعبیر کے مطابق دنیا اور آخرت کی نجات کے لیے صرف اور صرف عشق رسول کا ہونا کافی ہے۔ شریعت، مسائل، اعمال و اخلاق کی حیثیت ثانوی ہی نہیں بلکہ محض اضافی ہے۔ مزید یہ کہ عشقِ رسول کے چند مظاہر مقرر کردئیے گئے ہیں جن کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو سب کے سب مولوی صاحب کی شخصیت ،ان کی تشہیر اور ان کے معاش کے گرد گھومتے ہیں۔ مثلاً مساجد کی سجاوٹ، میلاد و نعت کی محفلیں اور ان کے لیے کھانے کا انتظامات ، جلسے جلوس تقاریر، نعرے اور اب دھرنے بھی۔ عشق رسول کا ایک لازمی تقاضا، اور سب سے بڑا مظہر اس تصور کو نا ماننے والوں سے نفرت اور انہیں گستاخِ رسول سمجھنا ہے۔ 
اب جو جتنا اس خاص تصورِ عشقِ رسول کے عملی مظاہر میں پرجوش ہوگا ،وہ اتنا بڑا عاشق رسول سمجھا جائے گا۔ اس کی نجات کی ضمانت حلفًا دی جاتی ہے۔ یعنی عشق ِرسول ایک ایسا اکسیر ہے جس کے بعد کوئی گناہ ، کوئی بد اخلاقی آپ کی نجات کی راہ میں حائل نہین ہو سکتی۔ عشقِ رسول کی سند بھی چونکہ مولوی اور پیر صاحب دیتے ہی، اس لیے ظاہر ہے کہ ان کو خوش کرنا اور خوش رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ عشقِ رسول کی اسناد نانٹنے اور آخرت کے لافانی فوائد کے بدلے وہ مریدین سے دنیا کے فانی فوائد حاصل کرتے ہیں اور بے حد کرتے ہیں۔ یہاں تک کے بھوکے مفلس مریدوں سے بھی نذرانے وصول کرتے ہیں اور اپنی خاندان اور اولاد کے لیے شاہانہ زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی مستحکم پیر صاحب کے اثاثہ جات اور ان کے ذرائع آمدن کو دیکھ لیجیے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔

بریلوی طبقے کے معتبر علماء بریلوی مدارس او ر خانقاہوں میں پلنے والے اس کرادر اور ذہنیت کے بارے میں عمومًا کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں وجہ یہی ہے کہ عوام مین اسلام کی یہی تعبیر معروف ہے اور اس دھارے کے خلاف بات کرنا خود کو مطعون کرانے کے مترادف ہے ۔ اب ان میں سے جو یہ ہمت کرتے ہیں ان کو اس روایتی فکر کے حاملین کی طرف شدید طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دیوبند اور اہل حدیث معتبر اور معتدل علماء اپنے مسالک کے غلط رویوں کے بارے میں عمومًا لب کشائی کرنا پسند نہیں کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد مین ہونے والے حالیہ دھرنے میں ہونے والی کھلی فحش گفتگو اور بد اخلاقی کے باوجود معتدل اورمعتبر بریلوی علماء نے زبان بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔

عوام میں پائے جانے والے عشقِ رسول پر مبنی اس غلط دینی تعبیر کی جڑیں صدیوں پرانی صوفیاء کی روایت سے چلی آتی ہیں، اس کو تبدیل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مستند علماء کرام شہادتِ حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سامنے آئیں اور عوام کو مخاطب کریں۔ علمی مجالس منعقد کی جائیں جو غیر علمی دینی مجالس کی جگہ لے سکیں۔ اس طرح عوام کو قرآن اور سنت کے درست اور مستند ماخذ سے روشناس کرائیں۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ مصلحت کی چادر کو طے کرکے رکھ دے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عشقِ رسول کے حد سے بڑھتے مظاہر کو حد میں رکھنے کے لیے قانون کے بے لاگ نفاذ کی تاکید کرے اور اس کے لیے پولیس کی بھی مناسب ذہنی تربیت بھی کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں