332

کہانی بے گھر کی : حنیف سمانا

جن چھوٹے گھروں میں زیادہ افراد رہنے پر مجبور ہوتے ہیں. وہاں نفسیاتی مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں. وہاں کے مکین غصّے, بے خوابی, بے ربط گفتگو ,حسد اور احساس کمتری جیسی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں.
 حدیثِ نبویؑ ہے
“بچّہ سات سال کا ہو تو اس کا بستر الگ کردو”
میں تو کہوں گا کہ ان کا کمرہ بھی الگ کردو مگر چونکہ ہمارے ملک کی اکثریت بڑی مشکل سے اپنی زندگی کو گھسیٹتی ہے. مکانات مہنگے ہیں. شہری علاقوں میں لوگوں کی اکثریت کرائے کے مکانوں میں رہتی ہے. ایسے بھی مجبور لوگ ہیں جو ایک کمرے کے مکان میں اپنے آٹھ آٹھ دس دس بچّوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں. ایسے میں اکثر لوگ ذہنی آسودگی, سکون, سکوت اور بعض جسمانی ضروریات کی محرومی کے باعث چڑچڑے پن کا شکار رہتے ہیں. ایسے گھروں میں لوگوں میں آپس میں ٹکڑائو کی سی کیفیت رہتی ہے. ہر وقت ہر بات پہ جھگڑے بھی ہوتے ہیں.. خودکشی جیسے انتہائی اقدام بھی دیکھنے میں آئے ہیں. یہاں صبر اور برداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے. ہمارا دین ایسے مقام پر ہماری اخلاقی تربیت کے ذریعے ہمارے بہت سے مسائل حل کرنے میں مدد دیتا ہے. بزرگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بچّوں سے شفقت سے پیش آئیں اور بچّوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ  بزرگوں کا احترام کریں. اگر گھر تنگ بھی ہو تو قربانی اور احساس کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی بہت جلد ان مسائل کو حل کردے گا.
اللہ کی زمین بہت بڑی ہے. وسائل کی بھی کمی نہیں .. بس یہ وسائل کا بانٹنا جن کے ہاتھوں میں ہے وہ ظالم ہیں.
کہیں کسی عمارت یا رہائشی پروجیکٹ کا اعلان ہوتا ہے وہاں ضرورت مند سے پہلے انویسٹرز پہنچ جاتے ہیں . دس دس فلیٹ بک کرلئے جاتے ہیں. کہیں کہیں تو پورے پورے پروجیکٹ کچھ انویسٹرز بلڈرز مافیا کے لوگوں کی مدد سے اپنی طرف کرلیتے ہیں اور پھر ضرورت مندوں کو بلیک میں فروخت کئے جاتے ہیں. اس طرح مکان یا فلیٹ کی قیمت اپنی اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے. یوں غریب آدمی ساری عمر اپنے دل میں اپنے ذاتی گھر کی تمنا لیے اپنی آخری آرام گاہ میں اتر جاتا ہے.
 اس سلسلے میں اگر ہمارے ارکان اسمبلی ایسی قانون سازی کرلیں کہ ایک شخص ایک سے زیادہ مکان یا فلیٹ نہیں رکھ سکتا تو اس طرح اس کام سے انویسٹرز کی چھٹی ہوسکتی ہے. یوں اربوں کھربوں کا سرمایہ جو بجری, سریے اور دیواروں میں بلاک ہوتا ہے وہ بھی دوسرے کاروبار میں سرکولیٹ کرکے ملک کی ترقی کا سبب بن سکتا ہے. لیکن یہ قانون سازی کرے کون ..
وہ جن کی اپنی رائیونڈ جیسی اسٹیٹ ہو, لندن میں فلیٹ ہوں, سرے میں محل ہوں?

اپنا تبصرہ بھیجیں