285

کونسا خدا

2009 میں جب میں سٹاک ہوم میں نیا نیا شفٹ ہوا تو نواحی علاقے کی ایک بڑی بلڈنگ میں رہتا تھا۔ اس بلڈنگ کے درمیان ایک بہت بڑا مشترکہ کچن تھا اور اطراف میں پچیس کے لگ بھگ کمرے تھے جن میں مجھ اکیلے پاکستانی کے علاوہ کچھ سویڈش اور پولش خواتین و حضرات بھی رہتے تھے۔

میرے ساتھ والے کمرے میں ایک تیس پینتیس سالہ سویڈش عورت رہتی تھی جو سٹاک ہوم کے بڑے ہسپتال میں نرسنگ کی جاب کرتی تھی۔ موصوفہ زندہ دل اور خوش اخلاق عورت تھی اور ہر وقت چہرے پر ہنسی سجائے رکھتی تھی۔ کچن میں سب اپنا اپنا کھانا بناتے تھے اور ڈائننگ ٹیبل پر اکثر اوقات دو دو چار چار کی ٹولیوں کی شکل میں کھا بھی رہے ہوتے تھے۔

ایک دن سویڈش نرس کو بار بار مرکزی دروازے کے باہر سگریٹ پیتے دیکھا، محترمہ کی ہنسی غائب تھی اور بار بار سگریٹ پر سگریٹ پئیے جارہی تھی۔ اس غیر معمولی تبدیلی پر مجھ سے رہا نہ گیا اور قریب جا کر اس پریشانی کی وجہ پوچھی، تو محترمہ نے جواب دیا کہ آج میری بہت قریبی دوست فوت ہو گئی ہے اور میں اس واقعہ کو بھولنا چاہتی ہوں۔

میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے خدا کا نام بار بار لینے اور خدا سے صبر مانگنے کا مشورہ دے ڈالا۔ خدا کا نام سنتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی اور شدید غصے میں مجھ سے مخاطب ہوئی کہ تم نے خدا کا نام میرے سامنے کیوں لیا ہے؟ کونسا خدا؟ کیسا خدا؟ میں روزانہ کئی لوگ ہسپتال میں اپنے سامنے درد سے بلبلاتے اور روتے ہوئے دیکھتی ہوں، لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہوتے ہیں میں نے کبھی کسی خدا کو لوگوں کی مدد کرتے نہیں دیکھا۔

آج کئی سالوں بعد یہ واقعہ اسلئے یاد آیا کیونکہ گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے شامی شہر دوما میں کیمیائی حملے میں سینکڑوں لوگوں کی شہادت، اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے درجنوں نہتے فلسطینیوں کی شہادت، کشمیر میں ظالم بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں درجنوں لوگوں کی شہادت اور قندوز میں درجنوں معصوم بچوں کی شہادت کے واقعات رونما ہوئے جن کو سن کر دل پریشانی اور غم سے بوجھل تھا۔

صبح اُٹھتے ہی ذہن کے کسی کونے میں یہ باغی خیال آیا کہ خدا ہماری مدد کرنے کیوں نہیں آتا؟؟ کیا وہ سویڈش عورت ٹھیک کہہ رہی تھی؟؟ خدا کہاں ہے؟ مسلمان پوری دنیا میں گاجر مولی کی طرح کیوں کٹ پھٹ رہے ہیں۔ صرف مسلمان ہی چاروں طرف کیوں مر رہے ہیں؟ ہمیں خدا کی مدد کب ملے گی؟ چودہ سو سال پہلے ہمیں جو مدد مل رہی تھی وہ اب کہاں ہے؟

یہ وہ سوالات تھے جو دماغ پر چاروں طرف سے حملہ آور تھے لیکن فوراً ہی مجھے علامہ اقبال کے جواب شکوہ کے وہ اشعار یاد آ گئے جس میں میرے تمام سوالات کے جوابات موجود تھے، اور میں نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا۔

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

اپنا تبصرہ بھیجیں