226

عمر جان کی چماروں سے دوستی۔

محلے کا بڑا گٹر، جہاں سب گھروں کی غلاظت گرتی تھی، بھر چکا تھا۔ ضرورت تھی کہ کوئی اس گندے جوہڑ سے گند نکال کر کچھ دور گزرنے والے گندے نالے میں ڈال دے اور محلہ صاف ہو جائے۔ مگر صفائی والا کوئی ملتا ہی نہیں تھا۔

عمر جانؔ جو دبئی دس سال لگا کر آیا تھا اور اب اپنا کھوکھا چلاتا تھا پان کا۔ ہر وقت سفید لباس میں بہتریں خوشبو لگا کر وہ پان منہ میں دبائے محلے سے گذرتا تو دیر تک گلی مہکی رہتی۔ جب بو سے جینا محال ہو گیا تو عمر جان نے سب گھروں میں دستک دی اور کہا کہ صفائی کرنے والے باہر سے نہیں آئیں گے، ہمیں خود ہی یہ کام کرنا ہوگا۔ ویسے بھی عیسائی سارے تو بیرون ملک چلے گئے، اور مسلمان صفائی والے ملتے نہیں۔ اس لیے اب ہمیں خود ہی یہ کام کرنا ہوگا۔

بڑی عجیب بات تھی، محلے میں سب مانتے تھے کہ بو سے جینا محال ہے اور صفائی کی ضرورت ہے۔ مگر کوئی ایک بھی ساتھ دینے پر تیار نہ تھا۔ کرم علی شاہؔ کا بیٹا ساتھ ہونے لگا تو اسکے باپ نے گھوری ماری، پاگل ہو گئے ہو، ہم سید زادے اور یہ کام ؟ حاجی خادم حسینؔ نے گھٹنے میں درد کی شکائت کی، تو خالہ نذیراں نے اپنے گھر میں موجود بالٹیاں دینے سے انکار کر دیا، نا بابا میری بالٹیاں پلید ہو جائیں گی، تم کوئی اور بندوبست کرو۔

عمر جان کئی دن مدد کی درخواست کرتا رہا مگر محلے والے بڑھتے ہوئے گندے جوہڑ سے پیر بچاتے، اپنی شلواریں اڑس کر گزر جاتے مگر کوئی عمر جان کے ساتھ صفائی پر آمادہ نہ ہوتا۔

اس محلے سے زرا دور چماروں کی بستی تھی، جن کی گذر بسر مردہ جانوروں کی کھالوں کو سکھانے اور بیچنے سے ہوتی تھی۔ انکی بستی میں اتنی بدبو ہوتی تھی کہ رکنا محال ہوتا۔ عمرجان ایک دن وہاں گیا اور انکو اپنی گندگی صاف کرنے پر آمادہ کیا۔

اگلے دن کے سورج نے عجب منظر دیکھا، عمر جان سفید لباس میں، چماروں کے دو لڑکوں کے ساتھ جوہڑ کی گندگی صاف کرنے لگا ہوا ہے۔ جس نے دیکھا رک کر کچھ نہ کچھ کہا ضرور۔ شاہ صاحب نے عمر جان کو متنبہ کیا کہ جب نماز پڑھنے آنا تو غسل کرکے، کپڑے بدل کر آنا ورنہ نجاست کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی۔ صادق ٹھیکیدار نے عمر جان کو سمجھایا کہ کس طرف سے پہلے صفائی شروع کرے، تاکہ وہ اپنا مکان جو بنا رہا ہے اس کی بنیادیں جلد رکھ سکے۔

عمر جان اور اس کے ساتھ لگے دو مزدور اس کام کے لیے بہت کم تھے، اوپر سے محلے والوں نے جب یہ دیکھا کہ انکا پانی اب نکل رہا ہے تو انہوں نے اپنے بہت سے پینڈنگ صفائی والے کام شروع کر دیے، کسی کو پرانے کپڑے دھونا یاد آیا تو کسی کو فرشوں کی صفائی۔ اس عمل سے دوگنا پانی جوہڑ میں شامل ہو جاتا۔

کچھ دن گذر گئے تو محلے کے لوگوں نے عمر جان پر آوازے کسنا شروع کر دیے۔ نہیں ہونا تم سے یہ کام۔ تم ٹھیک سے کر ہی نہیں رہے۔ اور یہ جو لوگ تم نے لگائے ہیں کتنی بدبو آتی ہے ان کے جسموں سے۔ اب تو تمہارے کپڑوں سے بھی آنے لگی ہے۔ بھیا رہنے دو، تم سے نہیں ہوگا، الٹا آئے دن تمہاری گندی بالٹیوں کی وجہ سے محلے کا تنگ رستہ بند ہو جاتا ہے اور ہمارے کاموں میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔

عمر جان جانے کسی ڈھیٹ مٹی کا بنا ہوا تھا، دن بھر صفائی بھی کرتا، اور محلے والوں کی گالیاں بھی سنتا۔ اور اپنے مزدوروں کا خیال بھی رکھتا کہ وہی واحد مددگار تھے خدا کے بعد۔

بالاخر گندے گٹر کی صفائی قریباً مکمل ہونے کو آگئی، اور عمرجان کو امید تھی کہ کوئی دن جاتا ہے کہ اسکا محلہ صاف ستھرا ہو جائے گا۔

مگر آدھی رات کو پولیس نے چھاپہ مارا اور عمرجان کو پکڑ کر لے گئی۔ عدالت میں مقدمہ درج ہوا، مدعا علیہان میں شاہ صاحب، ٹھیکیدار اور اہل محلہ سب شامل تھے۔ الزام تھا کہ عمر جان کے تعلقات چماروں کے ساتھ ہیں، جس کی وجہ سے وہ عزت داروں میں رہنے کے لائق نہیں ہے۔ ضمنی الزامات میں عمر جان کے لباس کی گندگی اور اس کے جسم سے اٹھتی بدبو بھی شامل تھے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں