197

برطانوی خالص دودھ اور جنگلی شہد

یہ کئی برس پہلے کی بات ہے جب میں لندن سے پہلی بار سکاٹ لینڈ گیا تو وہاں ہائی لینڈز چراگاہوں، وادیوں اور اونچے سرسبز پہاڑوں کے دامن میں تاحدِ نظر پھیلی ہوئی شفاف جھیلوں اور دلفریب نظاروں کو دیکھ کر ایک ناقابل بیان خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ قدرتی مناظر کی اس دلکشی نے مجھے ایک عرصے تک سرشار کئے رکھا۔ لندن واپسی سے دو دِن پہلے مجھے گلاسگو میں ایک پاکستانی دوست ملے۔ پوچھنے لگے کہ سکاٹ لینڈ میں کیا کچھ دیکھا۔ میں نے تفصیل بتائی تو بہت خوش ہوئے لیکن پھر کہنے لگے کہ اگر آپ نے سرسبز وادیوں میں گھِری سکاچ وہسکی کی فیکٹری اور جنگلی پھولوں کی چراگاہوں میں موجود ہنی فارم یعنی قدرتی شہد کے مراکز نہیں دیکھے تو آپ کا سکاٹ لینڈ کا دورہ نامکمل ہے۔ اگلے روز وہ مجھے سکاچ وہسکی بنانے کی فیکٹری اور سکاٹ لینڈ میں جنگلی شہد کے فارم کی سیر کرانے کے لئے لے گئے۔ سکاچ وہسکی کشید کئے جانے کے مراحل کی تفصیل پھر کبھی سہی فی الحال جنگلی شہد کے فارم کا ذکر آپ کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا۔یہ فارم 1945ء میں بنایا گیا۔ پرتھ شائر کی سرسبز وادیوں میں قائم اس فارم کو ہیدر ہلز(HEATHER HILLS)ہنی فارم کہتے ہیں۔ اس فارم میں شہد کی مکھیاں جنگلی جڑی بوٹیوں کے پھولوں کا رس چوس کر دنیا کا بہترین شہد تیار کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا بھر میں اس فارم کے شہد کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ شہد اور دودھ قدرت کی ایسی نعمتیں ہیں جنہیں دنیا کی بہترین، مکمل اور صحت بخش غذا اور دوا سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے علاؤہ تمام الہامی کتابوں اور مذاہب میں بھی اِن دونوں اشیاء کے تقدس اور افادیت کا ذکر کیا اور حوالہ دیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ النحل کی آیت نمبر 68 میں خصوصی طور پر شہد کی مکھیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق اللہ نے انہیں شہد اور دودھ کی سرزمین عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ وزن میں ایک پاؤنڈ شہد بنانے کے لئے ایک مکھی کو 20لاکھ پھولوں کا رس چوسنا اور اوسطاً 55ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ شہد کی 768مکھیاں زندگی بھر میں ایک پاؤنڈ شہد بناتی ہیں جو کہ ان کی اپنی غذائی ضرورت سے تین گنا اضافی ہوتا ہے۔ یعنی ایک شہد کی مکھی کی زندگی کا حاصل صرف 1/12ٹی سپون (چائے کا چمچ) شہد ہوتا ہے۔ خالص شہد کو اگر سیل کر کے رکھ دیا جائے تو وہ سالہا سال خراب نہیں ہوتا کیونکہ اس میں کسی قسم کے جراثیم بیکٹیریا یا وائرس پنپ نہیں سکتے۔ شہد میں 80فیصد مٹھاس اور تقریباً 20فیصد پانی ہوتا ہے۔ ایک ٹیبل سپون یعنی ایک کھانے کا چمچ (15ملی لیٹر)شہد کھانے سے 46کلو کیلوریز (فوڈ انرجی) حاصل ہوتی ہیں اور اس میں وہ تمام ضروری اجزاء ہوتے ہیں جو زندگی بچانے کے لئے لازمی ہیں۔ 

شہد کا استعمال انسانی دماغ کو فعال بناتا ہے اور اسے صدیوں سے موسمی کھانسی کا علاج سمجھا جاتا ہے۔ مقامی شہد کا استعمال ہر طرح کی الرجی سے مدافعت کا باعث بنتا ہے۔برطانیہ میں دودھ اور شہد کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تقریباً ہر گھر میں ناشتے کا ضروری حصہ ہوتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں ہر سال 43ہزار ٹن شہد کھایا جاتا ہے۔ شہد کی پیداوار کے معاملے میں برطانیہ خودکفیل نہیں ہے۔ اُسے 95فیصد شہد نیوزی لینڈ، چین، میکسیکو، سپین اور پولینڈ سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے جس پر اس کا سالانہ 151ملین ڈالرز کا زرِ مبادلہ صرف ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں برطانوی شہد کو اس کے ذائقے اور تاثیر کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اس لئے برطانیہ ہر برس تقریباً 17ملین ڈالرز مالیت کا شہد سعودی عرب، یو اے ای، آئرلینڈ، ہالینڈ اور امریکہ کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ برطانیہ میں دودھ اور شہد کے خالص ہونے کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کوالٹی کنڑول کے علاؤہ تاجروں میں مال بنانے کے لئے ملاوٹ کار جحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ دودھ اور شہد کی بوتل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہی کچھ اس کے اندر ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو دودھ اور شہد فراہم کرنے والی کمپنی کو بھاری جرمانے اور سخت عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں خالص دودھ کے علاؤہ کم چکنائی اور چکنائی کے بغیر بھی دودھ دستیاب ہوتا ہے۔ بڑے سٹورز پر بکری اور بھیڑ کا دودھ بھی باآسانی مل جاتا ہے۔ برطانیہ میں دودھ کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ یہاں ہر فرد ایک ہفتے میں اوسطاً ڈیڑھ لیٹر دودھ پیتا ہے۔ یوکے میں بچوں کو چینی (شکر) کے بغیر دودھ پینے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ اس لئے نوزائیدہ اور سکول جانے والے سو فیصد بچے کسی مصنوعی مٹھاس کے بغیر ہی دودھ پیتے ہیں۔ دنیا بھر میں دودھ پینے کے معاملے میں بیلا روس کے لوگ پہلے نمبر پر ہیں جہاں ہر فرد سالانہ 115لیٹر دودھ پیتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر انڈیا دودھ کی پیداوار میں سرفہرست ہے لیکن بہت زیادہ آبادی کی وجہ سے وہ بمشکل اپنی ملکی ضرورت کو پورا کر پاتا ہے۔ اس وقت نیوزی لینڈ، جرمنی اور ہالینڈ دودھ اور ڈیری پراڈکٹس کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بیشتر ملکوں میں چونکہ بھینسیں نہیں ہوتیں اس لئے صرف گائے کا دودھ ہی دستیاب ہوتا ہے۔ بھینس اور گائے کے دودھ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھینس کا دودھ گاڑھا ہوتا ہے جس میں چکنائی اور پروٹین کی مقدار گائے کے دودھ سے زیادہ ہوتی ہے۔ چکنائی کی زیادتی کے باعث بھینس کے دودھ سے مکھن اور گھی زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے برصغیر میں بھینسیں پالنے کا رجحان زیادہ ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ مغربی اور خاص طور پر یورپ کے غیر مسلم ممالک میں دودھ اور شہد میں ملاوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مسلمان جو دِن رات جنت میں جانے اور دودھ اور شہد کی نہروں کے خواب دیکھتے ہیں۔ اپنے ملکوں اور معاشروں میں قدرت کی اِن دونوں نعمتوں میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ کافر ملکوں میں خالص دودھ اور شہد فراوانی کے ساتھ دستیاب ہے جبکہ مسلم ممالک میں انتہائی مضر صحت کیمیکلز سے نقلی دودھ اور شہد بنا کر عام لوگوں اور خاص طور پر بچوں کی زندگی کو بیماریوں کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ 

پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت اللہ کے رسولؐ کے اس فرمان سے واقف ہے کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“ لیکن اس کے باوجود ہم عاشق رسولؐ ہونے کے دعویدار ہیں۔ سچا عاشق رسولؐ وہ ہوتا ہے جو اللہ کے آخری نبیؐ کے ہر فرمان پر عمل کرے۔ آپؐ نے جن باتوں کی تاکید فرمائی ہے اُن کی پیروی کرے اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے انہیں ہمیشہ کے لئے ترک کر دے۔ اگر ہم اپنے حکمرانوں، اربابِ اختیار یا کسی اور کو ملک کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار قرار دینے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم خود کتنے دیانتدار ہیں۔ ملاوٹ اور دو نمبری پوری قوم کا وطیرہ بن چکی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب صرف تعلیمی ڈگریاں ہی دو نمبر نہیں ہمارے سیاستدان، تاجر، علماء، جج، وکیل، اساتذہ، صحافی، ڈاکٹر اور عوام بھی دو نمبر ہو گئے ہیں۔اب تو صرف وہی دیانتدار ہے جسے بددیانتی کا کوئی موقع میسر نہیں۔ جس معاشرے میں خالص دودھ، شہد، دیسی گھی، دوائیں اور ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیا ناپید ہو جائیں، صفائی کو نصف ایمان نہ سمجھا جائے وہاں رب العالمین سے رحمتوں اور برکتوں اور دعاؤں کی قبولیت کی توقع رکھنا معلوم نہیں کس حد تک جائز ہے؟۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سرکاری محکمے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ اس معاملے یعنی ملاوٹ کے خاتمے کو کبھی اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بناتے اور نہ ہی علماء کرام اور مذہبی رہنما اس بارے میں عوام کو دینی تقاضوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جج صاحبان اس سلسلے میں کبھی کوئی ازخود نوٹس نہیں لیتے وہ کبھی اس تلخ حقیقت پر دھیان نہیں دیتے کہ ملاوٹ کے اس خطرناک رجحان کی وجہ سے پاکستان میں صحت کے مسائل میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آلودہ پانی پینے، ملاوٹ شدہ خوراک کھانے اور نقلی دوائیاں استعمال کرنے سے عوام کو جن بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں مراعات یافتہ طبقے کو نہ سوچنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اُن کے پاس اس پر غور کرنے کی فرصت ہے۔ صوبائی اور وفاقی محکمہ صحت کو سروے کرنا چاہئے کہ پاکستان میں دِن بہ دِن میڈیکل لیبارٹریز، ڈسپنسریز، ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی ضرورت کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا اس کا تعلق ملاوٹ شدہ خوراک اور آلودہ پانی کے استعمال سے بھی ہے؟ جو لوگ خطرناک کیمیکلز سے دودھ بناتے ہیں انہیں یہ امید نہیں کرنی چاہئے کہ جب وہ بیمار پڑیں گے تو انہیں ایک نمبر دوا ملے گی۔ اسی طرح کھانے پینے کی دیگر اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کو تیار رہنا چاہئے کہ اُن کی گاڑی میں جو پٹرول ڈالا جائے گا وہ مقدار میں کم اور دو نمبر ہو گا۔ دودھ اور شہد کو ہم مسلمان جنت کی نعمتیں سمجھتے ہیں لیکن کس قدر افسوس اور المیے کی بات ہے کہ ہم اِن دونوں نعمتوں میں بھی ملاوٹ سے گریز نہیں کرتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ جب ہم جنت میں جائیں گے تو وہاں خالص دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گے اور جن کے کنارے پر خوبصورت حوریں ہمارے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔

٭٭٭