301

بیٹری والی کار۔ An Emotional Poem

چھوٹے چھوٹے ہاتھ اُٹھا کر،
 ننھی گلابی ناک پُھلا کر،
 گردن اپنی کچھ گھما کر،
 دیکھ رہی ہے،
 بیٹی مجھ کو۔۔۔۔ 
ہاتھ میں اس کے ایک کھلونا،
 تھوڑا مہنگا اور نیارا،
 نظریں اس کی جمی ہیں مجھ پر،
 اب تو بابا لے دو مجھ کو،
 ایک کھلونا!
 کپڑے کی گڑیا ہی کب تک؟
 مٹی کے کھلونے کب تک؟
 بیٹری والی کار دلا دو۔۔ 
باربی ڈول کا سیٹ دلا دو،
 اگلی بار کا وعدہ کب تک؟
 پیارے بابا ابھی دلا دو۔۔
 سن کر اس کی پیاری باتیں، 
گود میں لے کر چوما اس کو،
 ہاتھ میں بٹوا لے کر اپنے،
 ہمت کر کے مُول جو پوچھا،
 بیٹری والی کار کی قیمت۔۔
 مہینے بھر کا کھانا پینا!!
 قیمت سُن کر گڑیا بولی۔۔ 
بابا کی شہزادی بولی،
 دیکھیں بابا کار ہے چھوٹی،
 رنگ بھی اس کا پھیکا سا ہے،
 اس پر جیری بنا ہوا ہے،
 مجھ کو تو بھئی ٹام پسند ہے،
 چھوڑیں بابا گھر چلتے ہیں۔۔۔
کھلونے والے پیارے انکل،
 اگلی بار جو گاڑی لاؤ،
 اس کا رنگ پھیکا سا نہ ہو،
 ٹام بھی اس پر بنا ہوا ہو،
 اگلی بار پکا لے لیں گے!
 آنکھوں میں کچھ نمی تھی اُس کے۔۔
 لہجہ بھی کچھ بھیگ رہا تھا۔۔
چھوٹے چھوٹے ہاتھ جھکے تھے،
 نظریں بھی کہیں اور جمی تھیں،
 بیٹی میری سمجھ گئی تھی!
 دل کو مارنا سیکھ گئی تھی۔۔
 (مانی جی، میں عوام، منصور احمد خان، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں