133

راستہ سپریم کورٹ سے نکلے گا

پی ڈی ایم کے علاوہ پورے پاکستان کی خواہش ہے کہ ایک ساتھ پورے ملک میں عام انتخابات ہو جانے چاہیں موجودہ اسمبلیاں اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں ایک دو ماہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن پی ڈی ایم کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح کوئی جگاڑ لگا کر حالات کا بہانہ بنا کر ایک سال کی توسیع کر لیں اتنی دیر میں عمران خان بھی تھک ہار کر بیٹھ جائے گا اور وہ عوام میں جانے کے لیے کوئی نہ کوئی بیانیہ بنا لیں گے لیکن عمران خان نے اتنا پریشر بڑھا دیا ہے عوام اس کھچ کھچ سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ اس سیاسی محاذ آرائی میں نہ تو کاروبار چل رہے ہیں نہ مہنگائی رک رہی ہے بلکہ غیر یقینی کی فضا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے اس لیے عوام اس سے نجات کا حل عام انتخابات سمجھتے ہیں حکومت کی جو سوچ تھی کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ جس میں یہ باور کروایا جا سکے کہ حکومت کو ایک سال کی توسیع ملنا ضروری ہے حکومت اس میں تو مکمل ناکام ہو چکی ہے لوگ انھیں موجودہ مدت پوری نہیں کرنے دے رہے چہ جائے کہ حکومت ایک سال کی توسیع کا خواب دیکھ رہی تھی تحریک انصاف نے اب حکومت کو کھلا آپشن دے دیا ہے اب تحریک انصاف عام انتخابات کی بات زور دے کر نہیں کرتی اور اسے وفاقی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اب تو تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جانے کے لیے بھی تیار ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں انتخابات ان کا آئینی حق ہے کیونکہ ان انتخابات کے لیے انھوں نے اپنی دو حکومتیں ختم کی ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان نے دو اسمبلیاں تحلیل کر کے غلطی کی ہے انھیں اب نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ عمران نے مشکل راستے کا انتخاب ضرور کیا تھا لیکن اسی چال نے حکومت کو پھنسا دیا ہے اسمبلیاں توڑنے کے بعد حکومت کے پاس صوبوں میں الیکشن نہ کروانے کا کوئی عذر قابل قبول نہیں صوبوں میں الیکشن سے راہ فرار کے جو ڈھکوسلے اختیار کیے گئے اس سے پی ڈی ایم بے نقاب ہو گئی واضح ہو گیا کہ حکومت کسی طور پر الیکشن میں نہیں جانا چاہتی اس کے لیے آئین کی بھی پروا نہیں کی گئی جس سے ایسا ماحول بن گیا تھا کہ پاکستان کے دانشور اور سنجیدہ حلقے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے تھے اب تو مطالبات بھی آرہے تھے کہ خدارا کوئی کردار ادا کرکے دست وگریبان سیاستدانوں کو چھڑوا دیا جائے اسٹیبلشمنٹ نے تو قسم کھائی ہوئی ہے البتہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر 9رکنی لارجر بینچ بنا دیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے خواہش سب کی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں ایک ساتھ انتخابات کروانے کے لیے یا تو دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال کر دیا جائے اور ساری اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہوں یا پھر قومی اسمبلی سندھ اور بلوچستان اسمبلی چند مہینوں کی قربانی دے کر تحلیل ہو جائیں تو ایک ساتھ انتخابات ہو سکتے ہیں ورنہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے سیاسی محاذ آرائی ختم نہیں ہو گی البتہ پی ڈی ایم چند ماہ تک اقتدار کو مزید انجوائے کر سکے گی لیکن ہر آنے والے دن میں پی ڈی ایم کی سیاست زمین بوس ہوتی جائے گی عافیت اسی میں ہے کہ فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور اگر دو صوبوں میں انتخابات ہو گئے تو تحریک انصاف کو بڑی کامیابی ملنے کا امکان ہے جس کے بعد قومی اسمبلی کے الیکشن ایک رسمی کارروائی ہوں گے دو صوبوں میں کامیابی کی صورت میں پورے ملک میں تحریک انصاف کو ایک نفسیاتی برتری حاصل ہو جائے گی اب پی ڈی ایم کو پتہ ہے کہ عدلیہ آئین سے ماورا تو کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی البتہ تمام فریقین کی رضامندی کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے اس وقت حکومتی حلقوں میں سوچ وچار ہو رہی ہے کہ کیا ہمیں دو صوبوں میں الیکشن لڑنا چاہیے یا عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں وہ کوئی اچھی نہیں پی ڈی ایم ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ لڑائی کو بڑھایا جائے عدلیہ کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے موجودہ بینچ کو بھی تڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہے حکومت کی کوشش ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں جن میں الیکشن ہونا ممکن ہی نہ ہو سکیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنے عزائم میں کامیاب ہوتی ہے تحریک انصاف الیکشن لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا کوئی اور راستہ نکلتا ہے آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔