بھلے ہمیں نظر نہ آتا ہو لیکن ہماری جلد ہر منٹ تیس چالیس ہزار مردہ سیلز گرا رہی ہوتی ہے. سالانہ تقریباً 4 کلو جلد ہم پھینک چکے ہوتے ہیں. لیکن سانپ کا مسئلہ الگ ہوتا ہے. وہ اپنی پوری کھال یا کینچلی بدل کر نئی شکل میں آجاتا ہے۔
سانپ کی ایک فطرت ہوتی ہے، اس کی فطرت میں کاٹنا ہے. یہ اپنے شکار کے گرد لپٹ کر اسے اتنا دباتا ہے کہ یا تو اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں یا دم گھٹ جائے. یہ شکار کھا کر بھی کسی چیز کے گرد لپٹ جاتا ہے تاکہ اسے ہضم کر سکے. انسان کی بھی ایک فطرت ہوتی ہے لیکن سانپ اور انسان میں فرق ہوتا ہے. انسان چاہے تو اپنی فطرت یعنی خود کو بدل سکتا ہے جبکہ سانپ اپنی کینچلی تو بدلتا ہے فطرت نہیں۔
دُنیا میں سب سے مشکل دوسروں کو بدلنا اور سب سے آسان خود کو بدلنا ہے. جیسے بازار میں ہر طرف فراڈ اور دھوکا ہو تو آپ بازار بدلنے کی بجائے خود اپنی پہچان ایک ایماندار کی کر کے بازار میں ایک ایماندار پیدا کر سکتے ہیں. آپ کے اس پاس لوگ ظالم ہیں آپ خود رحمدل بن کر رحمت کی پہلی کرن بن سکتے ہیں۔
ہم اکثر آسان راستہ چھوڑ کر مشکل راستہ چُن لیتے ہیں. پھر جب ہم پر مشکل راہ کی آزمائش آتی ہے. کوئی سانپ فطرت ہمارے مقابل ہوتا ہے تب ہمارا دم گھٹنے لگتا ہے. ہمیں برائی کے ساتھ برا بننے زیادتی سہہ کر ظالم بننے اور چور بے ایمان کے مقابل ساری دُنیا بری ظالم بے ایمان اور چور نظر آتی ہے. شیطان ہمیں بہکاتا ہے تمہارے پاس اچھائی کا کیا جواز رے گیا ہے.؟
ہمارا جواز انسانیت ہے. ہم اشرف المخلوقات انسان کل اپنے اعمال پر جوابدہ ہیں. ہم سانپ نہیں جو فطرت نہیں کینچلی بدلتا ہے. ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے. روزانہ توبہ استغفار کریں اور خود کو بدلنے کی کوشش کریں. جیسے ہماری جلد مردہ سیلز گرا کر نئی تازہ خوبصورت جلد بناتی ہے ایسے ہی توبہ گناہ جھاڑ کر ایمان کو تروتازہ رکھتی ہے۔
ریاض علی خٹک