183

عجیب وغریب ریاست

پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو یہاں کے رہنے والے روسا ہندو تھے یا سکھ تھے چند ایک مسلمان بھی تھے اور ان میں سے بھی زیادہ تر وہ تھے جنھوں نے انگریزوں کے لیے مخبریاں کرکے یا دیگر خدمات کے عوض انعام کے طور پر جاگیریں حاصل کی تھیں گنتی کے چند ایک خاندانی رئیس تھے باقی سب نوازے ہوئے لوگ تھے اس علاقے کی مسلمان کمیونٹی غریب تھی جو لوگ انڈیا سے ہجرت کرکے یہاں آئے وہ تو ویسے ہی لٹے پٹے تھے ان کے پاس کیا ہونا تھا لیکن یہ نو مولود ریاست لوگوں کی امارت کا سبب بن گئی لوٹ مار کی ابتداء اس کے جنم دن سے ہی شروع ہو گئی جو آج تک جاری ہے جعلی ذاتوں اور جعلی کلیموں سے شروع ہونے والی اس لوٹ مار میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہوتا چلا گیا ریاست وقت کے ساتھ ساتھ غریب سے غریب تر ہوتی گئی اور اس کے کرتا دھرتا اس کے ملازم سب امیر سے امیر تر ہوتے گئے تمام ریاستی ادارے زوال کا شکار چلے آرہے ہیں اور تمام نجی ادارے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ریاست کے صاحب اقتدار لوگوں کے ادارے چند سالوں میں ریاست بن جاتے ہیں اور جس محکمہ کے وہ انچارج ہوتے ہیں وہ محکمہ زمین بوس ہو جاتا ہے اس کی صلاحیتیں اپنے ذاتی ادارے کی ترقی کے لیے تو بڑی کارآمد ہوتی ہیں لیکن اسی شخص کی سرکاری ادارے کے لیے خدمات تباہی کا باعث بن جاتی ہے ریاست ڈیفالٹ کے دھانے پر کھڑی ہے اور ریاست کے کرتا دھرتاوں کی املاک سات براعظموں تک پھیلی ہوئی ہیں یہ ریاست دودھ کی پیدوار میں دنیا کے چوتھے پانچویں نمبر پر ہے لیکن دودھ عوام کی دسترس سے دور ہے نہ جانے وہ دودھ کہاں جا رہا ہے عوام کو لاکھوں ٹن کیمکلز ملا مشینی دودھ مل رہا ہے گندم کی پیداوار میں بھی ہمارا شمار ٹاپ ٹین ممالک میں ہوتا ہے لیکن آٹے کے حصول کے لیے عوام میلوں لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر جان کی بازی لگا کر آٹا حاصل کر رہے ہیں کجھور کی پیداوار میں بھی ہمارا شمار سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن کجھور 500 روپے کلو سے کم پر میسر نہیں یہ ریاست دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا اعزاز اپنے پاس رکھتی ہے لیکن ہر وقت اسے بقا کا خطرہ لاحق رہتا ہے دنیا کی عظیم فوج اس ریاست کے پاس ہے لیکن سیکورٹی سٹیٹ ہے دنیا کی قیمتی دھاتیں اس ریاست کے پاس ہیں لیکن انھیں استعمال نہیں کر پا رہے تمام سیاستدان محب وطن اور ملک کے خیر خواہ ہیں اور ملک کے لیے اپنی جانیں دینے کے لیے چوبیس گھنٹے تیار رہتے ہیں لیکن ملک کے عدم استحکام کا باعث بھی یہی لوگ ہیں ہر ایک نے اپنے دور حکومت میں ترقی کے چار چاند لگائے لیکن ملک کا چلنا دشوار ہو رہا ہے ہر ایک حکومت کی معاشی پالیسیاں زبردست رہی ہیں لیکن ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے ملک کی بیوروکریسی عوام کی خدمت گزار ہے لیکن سرکاری اداروں نے عوام کا سانس بند کر رکھا ہے بہترین اساتذہ ہیں بہترین تعلیمی ادارے ہیں لیکن تعلیم ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پا رہی ہم انسانیت کی معراج پر جانے کی بجائے جہالت کے گھپ اندھیروں کی طرف دوڑتے چلے جا رہے ہیں بہترین محنت کرنے والے مزدور کسان موجود ہیں لیکن نہ زراعت نظر آتی ہے نہ صنعت نظر آتی ہے ڈونیشن دینے والے ملکوں میں بھی ہم سرفہرست ہیں لیکن پھر بھی لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ہم جیسا مظلوم بھی کوئی نہیں اور ہم جیسا ظالم بھی کوئی نہیں یہ تضادات کا حسین امتزاج صرف اس عجیب وغریب ریاست میں ہی پایا جاتا ہے جس کے مسیحا بوچڑ بھی ہیں اور مسیحائی کی اعلی معراج پر بھی پائے جاتے ہیں اس ملک کے مسائل کا موجب بننے والے ہی اس ملک کے نجات دہندہ بھی ہیں ایسے معاشرے کا مستقبل کیا ہو گا جہاں یا بے ایمانی ایں تیرا ہی آسرا والا ماحول ہو جہاں برائی کو برائی نہ سمجھا جا رہا ہو جہاں جھوٹ بولنے والے کو لیڈر کہا جاتا ہو جہاں فراڈیا معاشرے کا جینیس ہو وہاں بہتری کی توقع رکھنا ہجڑے کے گھر بچہ پیدا ہونے کی امید سے زیادہ اور کچھ نہیں اگر آپ بہتری چاہتے ہیں تو ایسی خرافات کے ساتھ بہتری نہیں آسکتی اس کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا خرابیوں کا سبب بننے والوں کا محاسبہ کرنا پڑے گا آپ کا مستقبل آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے اگر آپ نے خود کو تبدیل کر لیا تو معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی ورنہ ہمارا حال اس ترکھان جیسا ہے جو درخت کے ٹہن پر بیٹھ کر آری سے اس کو کاٹ رہا تھا اور ہر آنے جانے والے سے پوچھ رہا تھاکہ اس ٹہن کا کیا بنے گا