202

الوداع

 یہ نظام قدرت ہے جو آیا ہے اس نے جانا ہے دنیا میں کتنے ایسے طاقتور لوگ آئے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد یہ نظام کیسے چلے گا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید دنیا کاسارا بوجھ انھوں نے ہی اپنے کندھوں پراٹھا رکھا ہے ان کے جانے کے بعد بھی دنیا کا نظام اسی طرح رواں دواں ہے سب کچھ عارضی ہے رہے نام اللہ کا پاکستان آرمی ایک حقیقت ہے پاکستان آرمی کے سربراہ کا شمار دنیا کے بااثر افراد میں ہوتا ہے دنیا کے بااثر افراد کی جو عالمی سطح پر فہرست مرتب کی جاتی ہے اس میں کسی اور پاکستانی کا نام ہو نہ ہو آرمی چیف کا نام ضرور ہوتا ہے ملک کے اندر بھی بظاہر جو مرضی کہا جائے لیکن آرمی چیف کو طاقت کا منبع تصور کیا جاتا ہے بہت سارے معاملات میں بظاہر ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں ہوتا ہے بین الاقوامی سطح پر بھی طاقتیں آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہیں اور بعض معاملات میں سول گورنمنٹ کی بجائے وہ فوج کی گارنٹی چاہ رہی ہوتی ہیں لہذا پاکستان میں کسی آرمی چیف کے جانے یا آنے کی خبروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے ابھی پاکستان میں غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے سیاسی حالات کی ابتری سیاستدانوں کی باہمی چپقلش صوبوں اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی احتجاج حکومتوں کو گرانے کی سازشوں کے پیش نظر عجیب وغریب تھیوریاں پیش کی جا رہی تھیں کچھ لوگ کہتے تھے کہ جان بوجھ کر حالات خراب کروانے جا رہے ہیں بس مارشل لاء لگا ہی چاہتا ہے کچھ لوگ ایمرجنسی لگانے اور کچھ صوبوں میں گورنر راج لگانے کی باتیں کر رہے تھے لیکن آئی ایس پی آر کے ایک لفظ، الوداعی ملاقاتوں،کے بعد معاملات واضع ہو گئے ابر آلود موسم صاف ہو گیا افواہوں کے بادل چھٹ گئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے واضع اعلان کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں لیں گے کے باوجود افواہیں عروج پر تھیں حالانکہ وہ کچھ عرصہ سے بین الاقوامی شخصیات سے اور چار پانچ روز سے ملک کے اندر الوداعی ملاقاتیں کر رہے تھے لیکن ہم چاہتے ہوئے بھی اس کی دو ٹوک انداز میں خبر نہیں دے رہے تھے اب جبکہ آئی ایس پی آر نے اپنے پریس نوٹ میں کہا کہ وہ الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں تو یہ خبر تمام میڈیا کی ہیڈ لائن ہے اس خبر کے بعد ان کی ایکسٹینشن لینے بارے سارے ابہام ختم ہو چکے اور بہت سارے معاملات واضع ہو گئے ہیں امید کی جا رہی ہے بلکہ میری انفارمیشن ہے کہ اگلے دس دنوں میں سیاسی معاملات کے حل میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے سیاستدانوں کو پیغام جا چکا کہ اپنے معاملات حل کرو۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں نظام سیاست آرمی چیف کی نظر کرم اور نظر غضب کے گرد گھومتا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ  6 سال تک آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہو رہے ہیں ان کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا دنیا میں باجوہ ڈاکٹرائین کی دھوم مچی رہی انھوں نے بھارت کی جارحیت پر منہ توڑ جواب دے کر بھارت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کو نکیل ڈال دی انھوں نے ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں ختم کرونے آئی ایم ایف سے قرض لینے بین الاقوامی اداروں اور شخصیات سے مالی امداد کے حصول میں حکومتوں کی مدد کی بین الاقوامی تعلقات خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کیا ففتھ جنریشن وار سے پاکستان کو محفوظ رکھنے پاک افغان بارڈر پر باڑ کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا کرتار پور راہداری تعمیر کرکے سکھوں کے دل جیت لیے لیکن سیاسی طور پر ان کی ذات پر ہمیشہ انگلیاں اتھتی رہیں انھیں پہلی بار میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن ان کی ذات کو ہدف تنقید بنانے والوں میں میاں نواز شریف ہی پیش پیش رہے پھر دوسری ٹرم کے لیے عمران خان نے انھیں توسیع دی لیکن عمران خان نے بھی ان پر خوب نشتر برسائے۔ 

اب جب وہ جا رہے ہیں تو کوئی بھی سیاستدان ان سے خوش نہیں جنرل باجوہ سے سیاسی جماعتوں کا جتنا بھی اختلاف ہو لیکن ان کا ہر حکومت کو سیاسی معاملات میں زیادہ تعاون حاصل رہا ہے میرا خیال ہے کہ ان کی پروفیشنل خدمات کے اعتراف میں وزیراعظم کو ان کے شایان شان تقریب منعقد کرنی چاہیے اب ذرا دوسری طرف آتے ہیں کیونکہ جانے والوں کی طرف لوگ کم ہی دیکھتے ہیں ہر کوئی آنے والے کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو دیکھیں کس کی قسمت کا ستارہ کھلتا ہے اس بار نئے آرمی چیف کی تقرری کی سعادت میاں شہباز شریف کے حصے میں آ رہی ہے لیکن کون ہو گا آرمی چیف اس کا فیصلہ لندن میں ہو رہا ہے جبکہ اعلان پاکستان میں کیا جائے گا وزیراعظم میاں شہباز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیراعظم کے مشیر ملک محمد احمد خاں نے لندن میں میاں نواز شریف سے نئے آرمی چیف کے نام پر مشاورت کی معلوم ہوا ہے انھوں نے دونام فائنل کر لیے ہیں اگلے ہفتے تک نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیا جائے گا یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری جس کو آرمی چیف بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اس پر مسلم لیگ کے اکابرین کا اتفاق نہیں ہو رہا مسلم لیگ اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی یہ فیصلہ خود ہی کرنا چاہ رہی ہے عین ممکن ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد پی ڈی ایم کی جماعتوں کی سیاست بھی علیحدہ ہو جائے جس نقطہ اتفاق پر پی ڈی ایم کی جماعتیں کھڑی تھیں وہاں سے یہ واپس اپنی پرانی پوزیشن پر چلی جائیں گی۔