170

امجد اسلام امجد

ابھی چند ہی مہینے پہلے ستمبر کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ ایسٹ لندن میں امجد اسلام امجد کے دیرینہ قدردان اور پُرخلوص انسان ساجد خان نے الخیمہ میں ایک عشایئے کا اہتمام کیا تھا جس میں امجد صاحب کے قریبی احباب اور دوستوں نے شرکت کی اور اُن سے ڈھیروں باتیں کیں۔ ابھی اس گفتگو کا لطف ذہن سے محو نہیں ہوا تھا کہ یہ غم ناک اطلاع ملی کی امجد اسلام امجد راہئی ملک عدم ہو گئے۔ لاہور کے بعد پاکستان سے باہر لندن ہی ایک ایسا شہر تھا جہاں امجد صاحب درجنوں بار آئے اور ہر بار خوشگوار یادوں کا سرمایہ اپنے احباب کے لئے چھوڑ کر گئے۔ اُن کی محبت بھری شخصیت کے مداح برطانیہ کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ اردو زبان کے ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت بہت مقبول اور مشہور ہونے کے بعد آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتی ہے اور عام لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز کرتی ہے۔ امجد اسلام امجد اس کے برعکس تھے۔ وہ ہر ایک سے بڑی اپنائیت سے ملتے، اپنی بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور ذہانت سے اُن اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے جو سات سمند پار آباد ہیں اور اپنے عہد کی بڑی شخصیات کی پذیرائی کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ لندن امجد صاحب کو بہت پسند تھا۔ وہ جب امریکہ یا کینیڈا بھی جاتے تو لندن میں چند روز کے لئے ضرور رُکتے تھے اور اس شہر کے دوستوں سے بہت بے تکلف ہو کر ملتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار امریکہ جاتے ہوئے وہ ایک دن کے لئے یہاں رکے تو مجھے کہا کہ ڈاکٹر جاوید شیخ، اعجاز احمد اعجاز، عارف وقار اور برمنگھم سے انور مغل کو اپنے ہاں شام کے کھانے پر بُلا لو۔ سب سے مشترکہ ملاقات ہو جائے گی۔ اس روز امجد صاحب بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔ یہ محفل رات دیر گئے تک جاری رہی جس میں شعر و ادب، ٹی وی ڈرامے اور دنیا بھر کے موضوعات پر بے تکلفانہ گفتگو ہوئی اور اس مجلس کی یادیں ابھی تک میرے دِل و دماغ میں تازہ ہیں۔ امجد صاحب ہمارے دور کے ایسے مقبول اور شاندار شاعر تھے جن کے مداح دنیا کے ہر اس ملک میں موجود ہیں جہاں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے آباد ہیں۔ اِن کے درجنوں اشعار اور نظمیں زبان زدِ عام ہیں جبکہ ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کو پسند کرنے والوں کی تعداد اگر کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہے۔ امجد اسلام امجد نے جو کچھ لکھا یا جو کچھ ان پر لکھا گیا اگر اِن کتابوں کو اوپر نیچے رکھا جائے تو ان کی اونچائی ایک عام انسان کے قد سے بھی بلند ہو جاتی ہے۔ اگر انہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز جیسے ایوارڈز نہ بھی ملتے تو بھی وہ اتنے ہی مقبول اور مشہور ہوتے۔ امجد اسلام امجد کی شخصیت کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے بارے میں اچھی اور مثبت گفتگو کرتے اور لوگوں کی عیب جوئی سے گریز کرتے تھے۔ یہی مثبت پن انہیں ہمیشہ سرشار اور متحرک رکھتا تھا۔ وہ نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرنے کے علاؤہ اپنے حاسدین کے منفی پن کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔انہیں امریکہ، برطانیہ یا دیگر ملکوں کے مشاعروں اور تقریبات میں بار بار اس لئے مدعو نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ بہت شہرت یافتہ ہیں یا ان کی لابی بہت مضبوط ہے بلکہ انہیں ان کی شاعری اور شاندار شخصیت کی وجہ سے مہمان کے طور پر بلا کر ان کی پذیرائی کی جاتی تھی۔ وہ صرف مستند ادیب اور شاعر ہی نہیں تھے بلکہ پُر تاثیر گفتگو کا ہنر بھی جانتے تھے۔ بہت سے نامور پاکستانی اہل قلم ایسے بھی ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ایک بار ان کی میزبانی کرنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں جبکہ امجد اسلام امجد اُن چند ادیبوں اور شاعروں میں سے تھے جو اپنی وضعداری اور وقار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ اردو مرکز لندن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید شیخ سے امجد صاحب کی دیرینہ دوستی تھی۔ وہ کئی بار اُن کے ہاں قیام پذیر ہوئے اور اُن کے گھر دوستوں کی بہت یادگار محفلیں ہوئیں جن میں اُن سے اُن کے بے مثال ڈرامے وارث اور ان کی شاعری پر غیر رسمی گفتگو اور سوال و جواب کا بھی لطف اُٹھایا گیا۔ ڈاکٹر جاوید شیخ کے علاؤہ لندن میں ساجد خان، راشد ہاشمی اور سہیل ضرار خلش سے امجد اسلام امجد کی بہت دوستی اور بے تکلفی تھی اور یہ سب دوست بھی امجد صاحب کی پذیرائی اور میزبانی میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے تھے۔ امجد صاحب کا انتقال اِن سب دوستوں کے ذاتی نقصان کی طرح ہے۔میں اپنے زمانہ طالبعلمی سے ہی امجد اسلام امجد کا مداح تھا۔ اُن کی بہت سی نظمیں اور اشعار مجھے ازبر تھے اور اب بھی ہیں۔ مجھے دو بار امجد اسلام امجد کے ساتھ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے عالمی مشاعروں میں شرکت اور سفر کا موقع ملا۔ وہ واقعی ایک شاندار انسان اور وضعدار ہستی تھے۔ سفر کے دوران اُن سے ان گنت باتیں ہوتی تھیں جو اب رہ رہ کر یاد آتی ہیں۔ اُن کی شخصیت کی طرح اُن کی شاعری بھی محبت سے لبریز ہے۔ میں جب بھی اُن کے ساتھ مشاعرے میں شامل ہوا تو اُن سے انکی مشہور نظم ”اگر کبھی میری یاد آئے“ کے علاؤہ اِن 4مصرعوں کی ضرور فرمائش کرتا تھا۔

تم جس رنگ کا کپڑا پہنو وہ موسم کا رنگ

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اس کا روپ امر

تم جس پھول کو ہنس کے دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے

تم جس لفظ پہ انگلی رکھ دو وہ روشن ہو جائے

مجھے اُن کی یہ نظم بہت پسند ہے

ہماری خوشیوں کی عمر کیا ہے

ہمارے غم کی بساط کیا ہے

ہم اپنے ہاتھوں میں شمع لے کر ہوا کے رستے پہ چل رہے ہیں

ہماری سانسوں میں بسنے والی تمام خوشبوئیں مر چکی ہیں

ہم اپنے ماضی کے پھول دانوں سے آرزوؤں کے برگ ریزے

کچھ اس توجہ سے چن رہے ہیں کہ جیسے ان کو

ملا کے رکھنے سے کوئی غنچہ چٹک اُٹھے گا

ہم اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں، رفاقتوں کی

گلاب تصویریں البموں میں کچھ اس طرح سے سجا رہے ہیں

کہ جیسے اِن میں سے کوئی پیکر اچانک اِ ک دِن دھڑک اُٹھے گا

ہمارے خوابوں کی وادیوں میں عجیب چشمے اُبل رہے ہیں

ہم اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھے فنا کے رستے پر چل رہے ہیں

ہمارے جسموں کے سرد خانے ازل کے شعلوں میں جل رہے ہیں

امجد اسلام امجد جون 2012ء میں جب لندن آئے تو اپنی کتاب شام سرائے عنایت کی اور اس میں شامل ایک طویل غزل(سہہ غزلہ) خصوصی توجہ سے پڑھنے کی تاکید کی جس کے چند اشعارانکی یاد میں اخبارِ جہاں کے قارئین کے ذوق کی نذر کر رہا ہوں۔

پوچھ رہا ہوں اندھوں سے

اپنے گھر کا رستہ میں

جان گیا ہوں دنیا کو

لیکن دیر سے سمجھا میں

سورج نکلا مشرق سے

اپنے گھر سے نکلا میں

چور بہت تھے بستی میں

پہرے دار اکیلا میں

بوجھ بہت تھا خوابوں کا

آخر کب تک ڈھوتا میں

دیکھ رہا تھا وہ مجھ کو

جس کو ڈھونڈ رہا تھا میں

سات زبانیں آتی تھیں

اور کھڑا تھا گونگا میں

اٹا ہوا ہوں مٹی میں

ارض و سما کا دلہا میں

سامنے آتا جاتا تھا

جو کچھ سوچ رہا تھا میں

اک منزل کی دوری ہے

جانے والو آیا میں

مل جاتے جو آپ کہیں

کرتا خوب تماشا میں

لکھتا اس پر ایک غزل

لاکھوں بار سناتا میں

جس میں اس کی خوشبو تھی

اس بستر پر لیٹا میں

وہ بھی مجھ میں ڈوب گیا

ایسے ٹوٹ کے برسا میں

میرے دِل کی سنتا وہ

اس کے دل کی سنتا میں

تم کرتے جو ایک نظر

ہو سکتا تھا اچھا میں

باقی سب کچھ دھوکا ہے

میرا تو اور تیرا میں

ایک جھلک جو دیکھی تھی

اب تک ہوں مستانہ میں

چھپ سکتی ہے خوشبو کب

کتنی دیر چھپاتا میں

اب تو یہ بھی یاد نہیں

کیسے اس تک پہنچا میں

اک گمنام سمندر کا

بے آباد جزیرہ میں

یہیں کہیں اس غافل سے

پہلی بار ملا تھا میں

موت محافظ ہے میری

اسی لئے ہوں زندہ میں

مجھے یاد ہے کہ جب آخری بار لندن کے الخیمہ میں اُن سے ملاقات ہوئی تو الوداعی سلام دعا کے وقت وہ میرا ہاتھ تھام کر ایک طرف لے گئے اور اداس ہو کر کہنے لگے کہ تم نے مجھے موسم گرما میں پھر سے لندن آنے کی جو دعوت دی ہے وہ اپنی جگہ لیکن اب میں سفر میں سہولت محسوس نہیں کرتا۔ اب تو بس ایک ہی سفر باقی رہ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا آپ نے بتایا تھا کہ عمرے پر جا رہے ہیں تو وہ مسکرا دیئے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اُن کی یہ مسکراہٹ آخرت کے سفر کے لئے تھی۔

میں رفتگاں کے لئے رو نہیں رہا لیکن

مری دعاؤں میں کچھ نام بڑھتے جاتے ہیں (ثنا اللہ ظہیر)۔

٭٭٭٭٭٭