331

کیا میاں شہباز شریف صاحب کے ساتھ اپریل فول ہوگیا؟

ایک بار پھر صحافیوں نے ایسا ماحول تشکیل دیا تھا جیسے کبھی نواز شریف کے لیئے دیا گیا تھا جنہوں نے چند ناعاقیبت اندیش کے مشورے پر “مجھے کیوں نکالا” ریلی نکالی، انہیں کہا گیا کہ آپ اس طرح کی کوئی ریلی یا دھونس دھمکی دیں تو جج دوبار بحال کرینگے لیکن قانون میں ایسا کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی اس بار ججز انکے ہاتھوں منیج ہوسکے اسلئے ریلی بری طرح ناکام ہوئی اور آگے الیکشن کے لیے “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ ترتیب دیا گیا جسکی بھرپور تشہیر بھی کی گئی۔ وہی چند صحافیوں نے میاں صاحب کو جمہوریت کا استعارہ اور نیلسن منڈیلہ بھی بنایا لیکن اسی دوران چھوٹے بھائی راتوں رات چھپ کر اندھیرے میں طاقتور حلقوں سے ملتے بھی رہے، اس سے قطعہ نظر کہ بڑا بھائی ووٹ کو عزت دو اور خلائی مخلوق کے خلاف صف آرا ہونے کی تیاری کر رہا ہے، لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اندھیری رات والی ملاقاتیں بھی کر رہا تھا، پھر جیسے ہی عمران خان کی حکومت بنی احتساب عدالتوں سے بڑے میاں کو سزا ہوئی اور چھوٹے میاں نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور دیگر پارٹی کے اہم راہنما نیب کے شکنجے میں آگئے، اب سب کو اپنی جان کی پڑ گئی کیسے خود کو بچانا ہےوہ نعرے وعدے دعوے سب دھرے دھرے رہ گئے۔ 

کافی وقت بعد میاں صاحب کو ضمانت اور طبی بنیادوں پے باہر جانے کی اجازت ملی وہ اجازت کیسے لی گئی، سب کو یاد ہے طوالت کے پیش نظر لکھنےسے نظر انداز کررہاہوں۔ آخری بار جب دونوں بھائی باہر گئے تو طے یہ ہوا تھا کہ علاج کے بعد فورا واپس آئینگے جس کی ضمانت شہباز شریف نے خود دی تھی، کافی عرصہ گزرنے جانے کے باوجود علاج  شروع  نہیں ہوسکا جس پر  حکومت کو ضمانت بھی ختم کرنا پڑی۔ اچانک کرونا کی وبا شروع ہونے سے پہلے اور شروع ہونے کے بعد وہی سارے صحافیوں جن کے مشوروں سے نواز شریف خود کو تباہ کربیٹھے ہیں  ایک بار پھر اسی ٹولے نے ایک نیا شوشہ قومی حکومت کا چھوڑ دیا اور اسطرح یقین دہانی کرائی گئی کہ عنقریب قومی حکومت بنائی جائیگی اور سربراہی شہباز شریف کو دی جائے گی جس پر مسلم لیگ ن کے کچھ راہنماؤں نے ایسے بیانات بھی دئے کہ قومی حکومت  اس صورت قبول ہوگی، ایسے نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ حالانکہ وہی ٹولہ دسمبر سے حکومت جانے کی پیشنگوئیاں کر رہا ہے لیکن ہر بار انکی پیشنگوئی غلط ثابت ہوتی ہے۔ 

اسی چکر میں شہباز شریف کو اجلت میں لندن سے واپس آنا پڑا، انکے واپس آتے ہی انہی صحافیوں نے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کہ بس اب چند دنوں بعد حکومت شہباز شریف کے حوالے کی جائے گی لیکن یہ واپسی شہباز شریف کے لیے ایسا ثابت ہوئی کہ جیسا جال ڈال کر مچھلی کو پھنسایا گیا ہو، موصوف وطن واپس پہنچ کر کرونا جیسی وبا کو لیکر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور بھرپور سیاست کرنے کی کوشش کی، جس سے انکی نیک نامی نہیں ہوئی بلکہ الٹا بدنامی زیادہ ہوئی۔ 

جس خواب کے ساتھ وہ آئے تھے وہ پورا نہیں ہوا جب انہیں ہر طرف سے کوئی آسرا نہیں ملا تو ایک صحافی سہیل وڑائچ کے ذریعے شکست خوردہ انٹریو دیا جس میں بہت کچھ انکشافات اور اعتراف بھی تھے جس سے انکی ووٹ کو عزت دو کی رہی سہی عزت بھی ڈوب گئی، اس کالم کی بھر پور پوسٹ مارٹم شاہین صہبائی صاحب کرچکے ہے اسلیے طوالت کی پیش نظر اسے بھی نظر انداز کرتا ہوں۔

اب صورت حال یہ کہ شہباز شریف صاحب ایک بار پھر پتلی گلی سے واپس لندن جانے کا راستہ دیکھ رہے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ لندن میں کرونا وبا پاکستان سے زیادہ ہے وہاں حالات زیادہ خراب ہیں، اسلئے وہ بھی فی الحال ممکن نہیں ہے جبکہ دوسری طرف نیب کا بار بار بلاوہ آرہا ہے اب شہباز شریف صاحب مکمل طور پر بے نقاب ہوچکے ہیں، نہ خدا ملا نہ وصال صنم کے مصداق لگتا ہے اس بار شہباز شریف صاحب کے ساتھ اپریل فول ہوگیا ہے۔

تحریر: عمران اللہ مشعل

اپنا تبصرہ بھیجیں