122

دہشتگردوں کے وار اور حکومت کی بے حسی

ابھی کل کی بات ہے جب پشاور پولیس لائنز میں دہشتگردی کے نتیجے میں 102 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے خیبر پختون خواہ کی فورس پر یہ بہت بڑا حملہ تھا خیبر پختون خواہ پولیس کا اس میں ناقابل تلافی نقصان ہوا  اور جو آئی جی جذباتی ہو کر بدلہ لینے کی ٹھان کر دل وجان کے ساتھ دہشتگردوں تک پہنچنے کی جدوجہد کر رہا تھا اسے سیاسی بنیادوں پر تبدیل کر دیا گیا اتنے بڑے واقعہ کے بعد ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیں تھیں یہ اے پی ایس واقعہ جیسا بڑا واقعہ تھا لیکن اے پی ایس واقعہ کے بعد جتنی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھائے گئے تھے اس بار اتنی ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا کہتے ہیں کہ مرگ والے گھر نہ بھی رونا آ رہا ہو تو رونے والا منہ ہی بنا لینا چاہیے لیکن انتہائی بدقسمتی کہ ہم نے ایک ڈیڑھ ہفتے بعد ہی اس کو بھلا دیا اور یہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ہمارے ساتھ شاید ہوا ہی کچھ نہیں دشمن نے ہماری بےحسی کو بھانپتے ہوئے کراچی پولیس چیف کے دفاتر کو ٹارگٹ کیا اور جمعہ کی شام بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشتگردوں نے حملہ کر دیا پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے انتہائی جوانمردی اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا یہ ہماری فورسز کے پروفیشنل ازم کو اجاگر کرتا ہے لیکن اس واقعہ کے رونما ہونے سے بہت سارے سوالات بھی ابھرتے ہیں ہم پچھلے چار پانچ ماہ سے دیکھ رہے ہیں کہ دہشتگرد پولیس کو خصوصی نشانہ بنائے ہوئے ہیں دہشتگردی کے خطرہ کے الرٹ بھی جاری کیے گئے تھے اور پشاور پولیس لائنز کے واقعہ کے بعد تو ہمیں ہرممکنہ اقدامات کرلینے چاہیں تھے لیکن ہم نے دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے دہشتگردوں کا کراچی پولیس چیف کے دفتر میں گھس جانا ہماری سیکیورٹی کے نقائص ظاہر کرتا ہے ہم نے دروازوں پر تو سیکیورٹی بڑھا لی وہاں سے کسی کے اندر جانے کی راہ روک لی لیکن دیواروں کی حفاظت نہ کر سکے کیا دہشتگردوں نے آپ سے پوچھ کر گیٹ سے داخل ہونا تھا اور پھر دہشتگرد کا چوتھی منزل پر پہنچنا بھی قابل تشویش ہے اس کامطلب ہے مین گیٹ یا اندر والے دروازے کے بعد کوئی سیکیورٹی لیر نہیں تھی یہ حکمت کاروں کی نااہلی ہے وہ تو شکر ہے کہ ہمارے جوانوں نے ان دہشتگردوں کو جلد قابو کر لیا اور ہم کسی بڑے نقصان سے بچ گئے ورنہ حملہ آوروں کا ٹارگٹ تو کچھ اور تھا۔ 

اب آتے ہیں حکومتی اقدامات کی طرف حکومت نے سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان ٹو تیار کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا پھر نہ جانے کیوں اس کی تاریخ بدل دی پھر ترکی میں زلزلہ آگیا اور پتہ چلا کہ وزیراعظم صاحب ترکی جا رہے ہیں ان کی واپسی پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی وزیراعظم کا دورہ ترکی تاخیر کا شکار ہو گیا اور نیشنل ایکشن پلان بھی لٹک گیا وزیراعظم ابھی ترکی ہی میں تھے کہ کراچی پولیس چیف کےدفتر پر حملہ ہو گیا یہاں سے دہشتگردی کے خلاف نمٹنے کے حوالے سے ہماری سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے ملک کے اندر امن و امان کے ذمہ دار وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ آج کل سلطان راہی بنے ہوئے ہیں اور مخالفین کو خوب للکار رہے ہیں اوئے چھڈاں گے نیں اور وہ دن رات مخالفین کے فون ٹیپ کروانے کس مخالف کے خلاف کس بات پر مقدمہ درج کرنا ہے اور کس کو کس وقت اور کیسے گرفتار کرنا ہے اور گرفتاری کے وقت اور گرفتار کرکے اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے اس کی پلاننگ میں مصروف رہتے ہیں اس میں شاید ان کااتنا قصور نہ ہو وہ تو اپنی متعین ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں کیونکہ ان کی حکومت نے انھیں سیاسی ٹارگٹ دے رکھے ہیں جنھیں اچیو کرنا ان کے لیے زندگی اور موت کا مسلئہ بنا ہوا ہے ملک میں کس جگہ کیا ہو رہا ہے شاید ان کا مسلئہ نہیں اندازہ لگائیں جس وقت دہشتگرد کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ آور ہو رہے تھے اس وقت ہمارے وزیر داخلہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے بجھوائی جانے والی پولیس کے آپریشن کو مانیٹر کر رہے تھے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس روانہ کر دی گئی تھی انھوں نے زمان پارک کی ناکہ بندی بھی کر لی تھی لیکن حکومت نے وہاں موجود کارکنوں کا ردعمل دیکھ کر اور کراچی میں دہشت گردوں کے حملہ کی وجہ سے حکومت کو پولیس واپس بلوانا پڑی۔ پشاور پولیس لائنز کے واقعہ کے بعد تو وزیر داخلہ کو نیند نہیں آنی چاہیے تھی انھیں سیاسی بیان بازی اور مخالفین پر نشتر برسانے کی بجائے دہشتگردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں قوم کو بتانا چاہیے تھا انھیں قوم کو حوصلہ دینا چاہیے تھا انھیں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی نگرانی کرنی چاہیے تھی  ہماری عدم توجہی کی وجہ سے شاید دشمن ہماری اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر پے درپے وار کر رہا ہے کیونکہ دشمن بھانپ چکاہے کہ یہ آپس میں دست وگریبان ہیں ان کی توجہ بٹی ہوئی ہے یہ وار کرنے کا بہترین موقع ہے۔