Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
235

باجوہ سب سے بڑا سیاستدان نکلا

جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب جس دن سے رخصت ہوئے اس روز سے انفارمیشن کا ایک طوفان امڈ آیا ہے بلکہ ان کی رخصت کا یقین ہونے کے ساتھ ہی گولہ باری شروع ہو گئی تھی لیکن ان کے جانے کے بعد تو ہر کوئی ایسی ایسی باتیں کر رہا ہے ایسے لگتا ہے جیسے جنرل باجوہ کے ہاتھ میں کوئی جادو کی چھڑی تھی وہ جس طرف گھوماتے تھے سب تہہ تیغ ہو جاتے تھے سیاستدان تو ایسے کھلونے معلوم ہوتے ہیں وہ جس کو چابی دیتے تھے وہ پرفارم کرنا شروع کر دیتا تھا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں جنرل باجوہ نے جس سیاستدان کو جیسے چاہا استعمال کیا استعمال ہونے والے سیاستدان اب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں جنرل قمر جاوید باجوہ کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سنیر جرنیلوں کو نظرانداز کر کے آرمی چیف بنایا تھا خیال ان کا تھا کہ اب سب خیر ہے وہ جنرل راحیل شریف سے کافی خفا تھے اس لیے انھوں نے جنرل راحیل شریف کو مدت ملازمت میں توسیع نہ دی سنا ہے کہ وہ خود بھی توسیع نہیں لینا چاہتے تھے ورنہ وہ توسیع کے لیے حالات پیدا کر سکتے تھے میاں نواز شریف نے اپنی خواہش کے مطابق جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنایا لیکن ان ہی کے دور میں میاں صاحب نہ صرف اقتدار سے باہر ہوئے بلکہ انھیں جیل بھی جانا پڑا پھر ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے جو ڈونگرے جنرل باجوہ پر برسائے وہ تاریخ کا حصہ ہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوری مہم چلائی گئی جنرل باجوہ کی ہی مہربانی سے میاں نواز شریف جیل سے علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے بقول مخالف سیاستدانوں کے عمران خان کو اقتدار کی راہ دکھانے والے بھی باجوہ صاحب ہیں اور اقتدار سے رخصت کرنے میں بھی باجوہ صاحب کا ہاتھ ہے کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت بنوانے کے لیے بااثر امیدواروں کو تحریک انصاف کی راہ دکھانے میں پراسرار فون کالوں کا بڑا عمل دخل تھا پھر حکومت سازی میں نمبرز پورے کرنے کے لیے اتحادیوں کو جوڑنے میں بھی ٹیلیفون کالوں کا جادو چلا صادق سنجرانی کو اقلیت میں ہونے کے باوجود چیرمین سینٹ بنوانا جادو گری کا شاہکار تھا قومی اسمبلی میں واضح حکومتی اکثریت کے باوجود سینٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدوار کی ہار اور یوسف رضا گیلانی کی جیت عمران خان کو واضح اشارہ تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے عمران خان کو جھٹکا دے کر اعتماد کا ووٹ دلوانا بھی حکمت تھی۔

علیم خان کو وزیر اعلی نہ بنا کر عمران خان نے اپنے لیے گہرے گھڑے کھود لیے تھے پی ڈی ایم ٹوٹنے کے باوجود جوڑ کر عدم اعتماد لانا بھی فن سیاست کا اعلی نمونہ تھا حکومت کے ساتھ جینے مرنے کے عہدوپیماں کرنے والے اتحادیوں کا حکومت سے علیحدہ ہونا اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو کامیاب بنانا پاکستان کی سیاسی تاریخ کی شاہکار چال تھی اب راز کھل رہے ہیں کہ مونس الہی کو باجوہ صاحب نے کہا تھا کہ عمران خان کے ساتھ چلے جاو کوئی چوہدری شجاعت حسین سے بھی پوچھ لے کہ کہیں انھیں باجوہ صاحب نے تو نہیں کہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت نہیں بن رہی دو ووٹ درکار ہیں آپ سالک اور چیمہ کو کہیں پی ڈی ایم کے ساتھ چلے جائیں چوہدری پرویز الہی کا کہنا ہے کہ باجوہ صاحب نے راستہ دکھایا اب عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع دینا ان کی غلطی تھی وہ صیح اندازہ نہیں لگا سکے باجوہ صاحب نے انھیں دھوکہ دیا ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھنا مقصود نہیں تھا تو حمزہ شہباز کی پنجاب میں کیوں حکومت بننے دی گئی اور پھر ان کی حکومت ختم کر کے پرویز الہی کی حکومت کیوں بنوائی گئی جنرل باجوہ کے مشوروں کے جو باجے بج رہے ہیں اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب کے پیر بھائی تھے لیکن خود بہت بڑے پیر سیاست نکلے بوٹا تو کہتا ہے کہ مجھے تو باجوہ کے تعریفی بیانات کے پیچھے کسی کمپنی کی مشھوری لگتی ہے اگر سارا کچھ کہیں اور سے ہی ہونا تھا تو ہمارے سیاستدان کیا بیچ رہے تھے کیا ہمارے سیاستدان روٹی کو چوچی بولتے ہیں جو جس طرف ہانکتا ہے یہ اسی طرف بھاگے چلے جاتے ہیں کیا ان کے پاس اپنی کوئی سوچ نہیں اگر ان کی بات مان لی جائے کہ ان کو کام کرنے کے لیے فری ہینڈ نہیں دیا گیا یہ اتنے بے بس اور مجبور ہیں تو پھر انھیں سیاست نہیں کوئی اور کام کر لینا چاہیے اگر باجوہ صاحب کی خواہش تھی کہ علیم خان وزیر اعلی پنجاب بنیں تو وہ اپنی خواہش تو پوری نہ کر سکے لیکن دوسروں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے ان کی مدد ضرور کرتے رہے وہ اتنے طاقتور تھے کہ رجیم چینج کروا دی لیکن اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہ لے سکے باجوہ صاحب تو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی وضاحت تک نہیں کر سکتے دراصل ہمارے تمام سیاستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک ہوا بنا رکھا ہے وہ ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی یہ تاثر دے کر کہ ہمارے ان سے تعلقات ہیں، ہمارا عوامی دباو ہے، ہم زیادہ فرمانبردار ہیں، ہم وقت کی ضرورت ہیں آخر کب تک ہم ڈھکوسلوں پر سیاست کرتے رہیں گے سیاستدانوں کی ناکامی کی وجہ مداخلت نہیں ڈیلورنس کا نہ ہونا ہے ہمارے سارے سیاستدان نہ منشور پر بات کرتے ہیں نہ عوام کی خدمت کی سیاست کرتے ہیں صرف ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کرتے ہیں سب کی سیاسی روزی الزام تراشی پر چلتی ہے خدارا اب ملک وقوم کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کی طرف آئیں