314

پنجابی پولیس گردی اور عمران خان

بچپن میں کچھ عرصہ پنجاب کے ایک گاؤں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے، اس دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنکا نقش آج بھی دل و دماغ پر قائم ہے۔ ایک بازار میں درجنوں لوگوں کا ہجوم تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی تماشا کر رہا ہو، صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے میں بھی لوگوں کے درمیان سے ہوتا ہوا اگلی قطار میں پہنچ گیا، اچانک میری نظر اسی گاؤں کے رہائشی مضبوط جسم کے مالک عیسائی نوجوان پر پڑی، اسے پکی اینٹوں کے سولنگ پر لٹایا گیا تھا، اردگرد تین چار پولیس والے موجود تھے اور نوجوان سے کسی چوری کے بارے میں پوچھ رہے تھے، لیکن وہ پس و پیش سے کام لے رہا تھا، اچانک تین پولیس والے اسکی سولنگ پر بچھی ٹانگوں پر چڑھ کر کھڑے ہوگئے، اسکی دل خراش چیخیں آسمان کی طرف بلند ہوئیں، اور چند لمحوں میں اس نے چلانا شروع کردیا، میں نے نہ صرف یہ چوری کی ہے، بلکہ مزید جو جو آپ کہیں گے وہ بھی میں مان جاؤں گا۔ پولیس والوں کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی، گاؤں والے دم بخود یہ تماشا دیکھ رہے تھے، اس زمانے میں موبائل فون اور کیمرے نہیں ہوتے تھے، اس لیئے پولیس کسی خوف وخطر سے بے نیاز سرعام تشدد کیا کرتی تھی، خوف پولیس کو آج بھی کوئی نہیں ہے، انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ ملزم کے تشدد کر کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں گے، اسکی فلمیں بن کر سوشل میڈیا پر بھی آ جائیں گی، تب بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا، پولیس، میڈیکل کا نتیجہ دینے والے ڈاکٹر، جج، وکیل اور سیاستدان سب اپنے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے ایک ہوئے ہوئے ہیں، اگر ایک نہیں ہیں تو وہ عام عوام ہیں، جس دن عام عوام نے تعلیم اور شعور سے لیس ہو کر ان نام نہاد پیٹی بھائیوں پر چڑھائی کر دی اسی دن حقیقی تبدیلی آجائے گی۔

بچپن سے آج تک کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، لیکن پنجاب پولیس جوں کی توں ہی رہی، پنجاب کے اسی گاؤں میں دس ہزار کی آبادی میں کوئی پولیس اسٹیشن نہیں ہے، ایک دفعہ ایک پولیس اسٹیشن بنایا گیا، لیکن جلد ہی گاؤں والوں نے احتجاج کر کے اسے ختم کروا دیا، کیونکہ پولیس اسٹیشن بننے کے بعد جرائم مزید بڑھ گئے تھے، پولیس نے بھتہ لے کر اپنی نگرانی میں سارے کام کروانے شروع کر دیئے تھے۔

لگ بھگ سولہ سال پہلے ایک دفعہ اسی گاؤں میں ویک اینڈ گزار کر سوموار کی صبح لاہور کی طرف روانہ ہوا ہی تھا، کہ بچپن کے کلاس فیلو نے لـفٹ لینے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا، موصوف لاہور کے کسی تھانے میں سپاہی لگے ہوئے تھے، سارے راستے یہی بتاتے گئے کہ کس طرح وہ تھانے کے اندر اور اسکے اردگرد باہر شکار کی تلاش میں رہتے ہیں، کہیں کوئی بھولی بسری خاتون رپورٹ درج کروانے یا کسی جرم میں گرفتار ہو کر تھانے آئے اور سارا عملہ کسی نہ کسی طرح اسکی عزت کے ساتھ تفتیش کرے، اگر کچھ عرصہ کوئی خاتون ہاتھ نہ آئے تو بھولے بسرے سکول کے بچوں کو گھیر کر اپنا شیطانی تفتیشی عمل پورا کر لیتے ہیں، موصوف غرور اور شان بےنیازی کے ساتھ اپنے کارنامے گنوا رہے تھے، اور میں شرمندگی اور لاچارگی کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ میں کس معاشرے میں رہ رہا ہوں جہاں قانون کے محافظ ہی عوام کی عزتیں تار تار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، کئی سال بعد اچانک خبر ملی کہ اسی پولیس والے کی بیوی نے ایک عطائی ڈاکٹر سے ملکر کر اسے زہر کا ٹیکہ لگوا کر اور منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کردیا ہے، قتل کے بعد موصوف کو پولیس وردی سمیت کھیتوں میں دفن کردیا گیا اور اس زمین پر گندم بھی اُگ آئی، پولیس آہستہ آہستہ اپنے ملازم کے قتل کی تفتیش کرتی رہی اور آخر کار ایک دن موبائل فون کے ریکارڈ کی مدد سے قاتل تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئی، وردی سمیت لاش برآمد کر لی گئی، اور ملزم کی گرفتاری کیلئے چھاپے شروع ہوگئے، ملزم نے پولیس اور عدالتوں میں دو ڈھائی کروڑ تقسیم کردیئے اور باعزت بری ہوگیا، کچھ سال مزید گزرے اور قانون خدا حرکت میں آیا اور اسی عطائی ڈاکٹر کو کسی اور ستائے ہوئے نوجوان نے فائرنگ کر کے قتل کردیا، پولیس فوراً حرکت میں آئی اور اس نے پہلے قتل ہوئے ہوئے پولیس والے کے بھائیوں اور دامادوں کو پکڑنے کیلئے چھاپے مارنے شروع کردیئے، اس بنا پر کہ شاید انہوں نے اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے عطائی ڈاکٹر کو قتل کیا ہو، ہر رشتہ دار گرفتار ہوتا جاتا اور چالیس پچاس ہزار رشوت دے کر واپس گھر آتا جاتا، ایسے ہی ایک گرفتار شخص سے میں نے پوچھا کہ بھائی جب آپ نے قتل کیا ہی نہیں تو پولیس کو رشوت کس بات کی دے رہے ہو، اس پر اُس نے جواب دیا، یہ سچ ہے کہ میں نے قتل نہیں کیا لیکن پولیس کی چھتر پریڈ اور ذلالت سے بچنے کیلئے یہ رشوت بہت ضروری ہے، آخر میری بھی علاقے میں کوئی عزت ہے۔

قارئین آپکے سامنے پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی کی صرف دو تین مثالیں پیش کی ہیں، ایسی ہزاروں مثالیں ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے، روایتی پنجابی پولیس کے اسی ظلم وستم سے تنگ آ کر انصاف کے حصول کیلئے سابقہ الیکشن میں پی ٹی آئی اور عمران خان کا ساتھ دیا تھا، تاکہ حکومت میں آ کر جناب عمران خان پنجاب پولیس کو ایک مثالی ادارہ بنائیں گے اور ہمیں پولیس کے روایتی ظلم وستم سے نجات دلوائیں گے، لیکن شومئی قسمت دیکھئیے اس دفعہ بھی ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے، ساہیوال واقعے کے بعد ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہوگیا تھا کہ محترم عمران خان بھی روایتی سیاستدانوں کی طرح بدمعاش پولیس کے کارناموں پر پردہ ڈال رہے ہیں، لیکن اب ایک ذہنی مریض صلاح الدین پر بدترین تشدد اور پولیس تحویل میں ہلاکت پر یہ یقین ہوچلا ہے کہ اس ملک میں عمران خان کا فوری انصاف کے حصول کا نعرہ صرف ووٹ لینے کیلئے تھا، مملکت خداداد کے باشندوں کو ابھی کچھ عرصہ مزید خدائی انصاف پر ہی بھروسہ کرنا پڑے گا۔

#طارق_محمود

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں