323

وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ

پاکستان کے جتنے بھی حکمران آئے ہیں سب نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کا دورہ کیا ہے لیکن ہر وقت امریکہ نے سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا ہے ۔امریکی حکومت نے ہر وقت یہی تصور کیا ہے کہ ضرور پچھلی بار کی طرح اس بار بھی کوئی نہ کوئی ڈیمانڈ ہی کریں گے۔مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔جتنے بھی حکمران ائے بیوقوف مشیروں کے لکھے ہوئے الفاظ ہی واشنگٹن ڈی سی میں ان کے گوش گزار کرتے آئے ہیں اور کاغذ پر لکھے ہوئےمختصرالفاظ امریکیوں کو سنا کر اپنا دورے کی فارمیلٹی پوری کر کے 7 سٹار ہوٹل پر سادہ لوح عوام کے ٹیکسوں کے پیسے اجاڑ کر گھر واپس آجاتے تھے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔
عمران خان کی جوتی اور کپڑوں اور خود اعتمادی کو ایک طرف رکھ کر ان کے پاکستانی کمیونٹی جلسے میں دھواں دار تقریر کے بعد جب یہ شخص امریکہ کے میڈیا پر گیا تو اس نے افغانستان کو ایک ہفتے میں اڑا دینے والے ٹرمپ کے بیان پر ٹرمپ کے سامنے کہا
“افغانستان کی تاریخ پڑھیں وہاں جنگ کوئی جیتا نہیں ”
اور ٹرمپ نے غیر ارادی سر اثبات میں ھلا دیا۔
اسی پٹھان کے بچے نے جب بات ہوئی کہ ایران کے خلاف آپ سمندری حدود امریکہ کو دیں گے تو اس نے بڑے دبنگ انداز میں کہا کہ ہماری معیشت کی تباہ حالی کا بڑا سبب امریکہ کی جنگ لڑنا تھی اور پاکستان ایران پر ہونے والے ممکنہ حملے سے افیکٹ ہو گا سو ہم امن کی پر زور کوشش کریں گے ۔
اسی کنٹینر کے سیاسی کو جب کہا گیا کہ 3 ہزار امریکہ کے سپاہی مر گئے تو اس نے پلٹ کر کہا ہمارے 70 ہزار شہید ہوئے ہیں امریکہ کی جنگ لڑنے میں
اس کو جب شکیل آفریدی امریکن سپائی کا ذکر کر کے اس کی ڈیمانڈ کی گئی تو اس نے عافیہ صدیقی کا تذکرہ کر کے لاجواب کر دیا اور ساتھ کہا کہ شکیل آفریدی کی بات عافیہ صدیقی کیساتھ جوڑ کر سن سکتا ہوں ۔
اسی پشاوری چپل والے کو جب کہا گیا کہ اگر پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیار دہشت گردوں کے کنٹرول میں چلے گئے تو
ہلکا سا مسکرا کر خان نے کہا
آپ پریشان نہ ہوں ہمارے پاس کتنی پروفیشنل آرمی ہے یہ اہلیان امریکہ جانتے ہیں(یہاں وہ بتا رہے تھے کہ دہشت گرد تو کیا امریکہ بھی جان مار کر دیکھ چکا ہے مگر سراغ نہیں پا سکا )
اس شلوار قمیض والے وزیراعظم سے جب کہا گیا کہ اگر انڈیا اپنے نیوکلئیر پاور سرنڈر کر دے تو اس نے کہا پاکستان کو بھی ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہم جنگ نہیں چاہتے (یعنی ہم دہشت گرد نہیں، دہشت گرد انڈیا ہے ہم تو جوابی کاروائی کر رہے ہیں )
مخالفت سیاسی کریں آپ کا حق ہے مگر خدا کا خوف کریں حلق کی تھوک کو پانی پی کر نگلنے والے اور خود دار میں فرق کریں ، مجھے اپنا ایک قطعہ یاد آ رہا ہے
ہر گز مجھے قبول نہیں ضد تری کہ میں
خود داریوں کو بیچ کر پاس وفا کروں
یہ سر مجھے عزیز ہے عزت کی حد تلک
عزت نہیں تو سر کا میں گردن پہ کیا کروں
وہ امریکہ جو بین الاقوامی سطح پر ہر چیز کا کریڈٹ خود لیتا تھا اسی امریکہ کو امریکہ میں بیٹھ کر اوپن یہ کہنے والا کہ اسامہ کی خبر آئی ایس آئی نے بریک کی تھی شکیل آفریدی نے نہیں، اور ساتھ دبنگ انداز میں کہا
“پوچھیں اپنی سی آئی اے سے “
ٹرپ کو کہنا پڑا کہ پاکستانی ایک سخت جان قوم ہیں، اپنے وزیراعظم کی طرح، جبکہ اس سے پہلے ہم یہ سن چکے ہیں کہ پاکستانی پیسوں کی خاطر اپنی ماں تک بیچ دیں۔
خدا کی قسم اگر اس قوم میں غیرت ہو تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس غیور وزیراعظم کو ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو اور آرمی چیف کو ، ائیر پورٹ پر لینے جاتے۔
کیونکہ 9 مہینوں میں کھوئی ہوئی عزت کو پلٹا لینا ایسی بڑی کامیابی ہے جو رہتی دنیا میں بطور ریکارڈ تسلیم کی جائے گی۔
ٹرمپ کا یہ کہنا کہ مجھے دعوت ہی نہیں دی میں پاکستان آنا چاہتا ہوں اور اس پر بھی انشاءاللہ کہہ کر مسکرا دینا پٹھان کے بچے کا ہی کام تھا
باقی اب پاکستان کی حالت کو سنبھلنے میں تھوڑا وقت تو لگے گا۔ملک لوٹنے والے آہستہ آہستہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا رہے ہیں اور وہ وقت بھی آئے گا جس کی عوام توق کر رہی ہے۔
ندیم عباس بھٹی مسقط سلطنت آف

اپنا تبصرہ بھیجیں