799

جرمنی میں سٹوڈنٹ ویزہ، حصہ دوم

جرمنی میں پڑھائی کیلئے پہلے حصے میں ایف ایس سی کے بعد انڈر گریجوایٹ طالب علموں کیلئے انفارمیشن دینے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے لئے شرط ہے کہ وہ پاکستان سے جرمن بی ون لیول کا امتحان پاس کر کے جرمنی آ سکتے ہیں، جن طالب علموں نے پاکستان سے چار سالہ یا پانچ سالہ گریجوایشن پروگرام پاس کیا ہوا ہے اور وہ ماسٹر پروگرامز، ایم فل یا پی ایچ ڈی کیلئے جرمنی آنا چاہتے ہیں ان کیلئے جرمن زبان سیکھنے کی شرط نہیں ہوتی اور وہ پاکستان سے ڈائریکٹ جرمن یونیورسٹیز میں داخلہ اپلائی کرسکتے ہیں، لیکن انہیں داخلہ اپلائی کرنے سے پہلے انگلش زبان کا امتحان آئلٹس چھ بینڈ سے پاس کرنا لازمی ہوتا ہے۔

ایک چیز اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ چاہے آپ پاکستان سے جرمن سیکھ کر جرمن زبان میں گریجوایشن کرنے جرمنی آرہے ہیں یا انگلش آئلٹس پاس کر کے ایم فل کیلئے یا پی ایچ ڈی کیلئے جرمنی تشریف لا رہے ہیں جرمن ویزہ اپلائی کرنے سے پہلے آپکو جرمنی میں اپنے نام پر اون لائن اکاؤنٹ کھلوا کر دس ہزار یورو یا سترہ لاکھ پاکستانی روپے کے لگ بھگ رقم لازمی جمع کروانی ہوگی، اسکے بغیر آپکو ویزہ نہیں ملے گا۔

جرمنی میں ایم بی اے یا اس طرح کے کچھ دوسرے پروگرامز کے علاوہ زیادہ تر تعلیمی پروگرامز میں پڑھائی مفت ہوتی ہے، یعنی یونیورسٹیز کسی قسم کے تعلیمی اخراجات فیس کی مد میں وصول نہیں کرتیں، لیکن جرمنی میں رہنے، کھانے، ٹرانسپورٹ اور میڈیکل انشورنس کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیئے ویزہ اپلائی کرنے سے پہلے جرمنی میں اون لائن اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں تقریباً دس ہزار یورو کی رقم جمع کروانا پڑتی ہے جو جرمنی میں رہنے کیلئے ایک سال کی گارنٹی ہوتی ہے کہ طالب علم ایک سال دل لگا کر اپنی پڑھائی مکمل کرے گا اور اس دوران وہ اپنے بنک اکاؤنٹ سے ہر مہینے آٹھ نو سو یورو کے لگ بھگ رقم اپنی ضرورت کیلئے نکلوا سکتا ہے لیکن تمام رقم ایک ساتھ نہیں نکلوائی جاسکتی، یہ رقم شو کروانے پر اسے ایک سال کا ویزہ ملتا ہے اور ہر سال کے ویزہ کیلئے یہ رقم شو کروانی لازمی ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں جرمنی میں طالب علم کے طور پر قیام کے دوران ہر اگلا ویزہ لینے کیلئے یہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں شو کروانی ضروری ہے۔

پاکستانی روپے میں آجکل کے ایکس چینج ریٹ کے حوالے سے یہ رقم تقریباً سترہ لاکھ سے تھوڑی زیادہ بنتی ہے۔ ایڈوانس گارنٹی منی جمع کروانے سے چھٹکارا صرف دو اقسام کے لوگ پا سکتے ہیں اوّل کسی کا خونی یا بہت قریبی رشتہ دار یا کوئی دوست جرمنی یا پورے یورپ میں رہتا ہو اور وہ اس ملک میں جرمن ایمبیسی جا کر گارنٹی کا فارم جمع کروا دے کہ وہ جرمنی میں رہائش کے دوران طالب علم کے تمام اخراجات کو پورا کرنے کی گارنٹی دیتا ہے، یا طالب علم کو جرمنی میں سکالرشپ مل جائے۔

جرمن ڈاڈ سکالرشپ پروگرام ہر سال جرمنی اور تمام دنیا کے طالبعلموں کیلئے ایک لاکھ تعلیمی سکالرشپس دیتا ہے، تاکہ تعلیم کے دوران طالب علم اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرسکیں۔ یہ سکالرشپ ماہانہ بنیاد پر طالب علم کے بنک اکاؤنٹ میں آتا ہے اور اسے واپس کرنے کی کوئی شرط نہیں ہوتی، آجکل انڈر گریجوایٹ پروگرامز میں طالب علموں کیلئے سات سو پچاس یورو، گریجوایٹ پروگرامز کے طالب علموں کیلیئے آٹھ سو پچاس یورو جبکہ پی ایچ ڈی طالب علموں کیلیئے بارہ سو یورو کا ماہانہ وظیفہ ادا کیا جاتا ہے، ڈاڈ پروگرام میں کئی اقسام کے وظیفے ہوتے ہیں جن میں ہیلتھ اور حادثاتی انشورنس کے علاوہ فیملی انشورنس بھی شامل ہوتی ہے۔

جرمنی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم نوکری کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر آپکا داخلہ کسی بڑے شہر یا درمیانے درجے کے شہر میں ہوا ہو تو صرف ویک اینڈ پر نوکری کر کے آپ اپنی رہائش کھانے میڈیکل انشورنس اور بس کارڈ کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں آپکے اکاؤنٹ میں پڑے سترہ لاکھ محفوظ ہوسکتے ہیں لیکن اگر آپکا داخلہ کسی انتہائی چھوٹے شہر کی یونیورسٹی میں ہوا ہے تو شاید وہاں پارٹ ٹائم نوکری ڈھونڈنے میں دشواری پیش آئے لیکن ہمت کرنے سے نوکری مل ہی جاتی ہے، پڑھائی کے ساتھ آپکو جو نوکریاں مل سکتی ہیں، ان میں صفائی، فروٹ کاٹنا، ریسورینٹ یا پیزہ سٹور میں کام کرنا، اخبار باٹنا، کسی فیکٹری میں مزدوری کرنا، یا کسی بحری جہاز یا ہوٹل میں کمروں کی چادریں بدلنا وغیرہ۔ اگر آپ اپنی فیلڈ میں ایکسپرٹ ہیں اور پاکستان میں کمپیوٹر پروگرامنگ یا دوسری ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں آپکے پاس تجربہ موجود ہے تو آپ کو اپنی یونیورسٹی میں ہی پروفیسر کے ساتھ اسسٹنٹ ہیلپر کی جاب بھی مل سکتی ہے۔

جرمنی میں تین اقسام کے تعلیمی ادارے موجود ہیں ساٹھ فیصد تعلیمی ادارے حکومتی زیر سرپرستی چلتے ہیں اور عام طور پر یہاں پڑھائی مفت ہوتی ہے، تیس فیصد تعلیمی ادارے نجی ادارے چلاتے ہیں اور یہاں اچھی خاصی فیس وصول کی جاتی ہے، جبکہ دس فیصد تعلیمی ادارے چرچ کی زیر سرپرستی چلتے ہیں، یہاں فیس تو وصول نہیں کی جاتی لیکن ان اداروں میں زیادہ تر مذہبی، فلسفہ اور سوشل ورک کی طرح کے پروگرامز پڑھائے جاتے ہیں۔ (جاری ہے۔۔)

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں