Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
311

پی ٹی ایم اتنی پیچیدہ کیوں بن گئی ہے؟

پی ٹی ایم منظور پشتین کی سربراہی میں نقیب اللہ محسود کی قتل کے بعد وجود میں آئی نقیب اللہ قتل کا واقعہ ایسا ایک واقعہ تھا جس میں ہر پاکستانی نے کھل کی مذمت کی اور پی ٹی ایم کا ساتھ دیا ماسوائے آصف زرداری شریک چئیرمین پیپلز پارٹی کے انہوں نے قتل میں نامزد بدنام ذمانہ ایس پی راؤ انوار کو بہادر بچہ قرار دیا اور اسے نقیب قتل کیس سے بے گناہ قرار دینے کی مذموم کوشش بھی کیا۔

اس واقعے کے بعد سب نے ملکر نقیب اللہ کے لیے آواز اٹھائ اور منظور پشتین کو گلے لگایا سپریم کورٹ نے نوٹس لیکر راؤ انوار کو گرفتار کروایا اور باقائدہ ٹرائل شروع ہوگئی عنقریب یا مستقبل قریب میں راؤ انوار کو سزا بھی ملے گی۔ منظور پشتین کو پورے پاکستان کے نوجوانوں نے خوش آمدید کہا اور یہ امید ظاہر کیا کہ اب پشتون سیاست روایتی خاندانی سیاست سے نکل کے نوجوانوں کے پاس آئیگی ہر طبقے کے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوں کو قوم کی نمائندگی کا موقع ملے گا۔

مگر پشتین پی ٹی ایم کو پیچیدہ بناتے گیا نقیب قتل کیس کے بعد انکا پہلا اور آخری حدف پاکستان آرمی اور ریاست رہی ریاست ماں ہوتی ہیں ماں سے گلے شکوے گالی کے زریعے نہیں پورے ہوتے جیسے انہوں نے کیا پھر جلد ہی وہ تمام دیگر نوجوان جنہیں پشتین سے امیدیں تھی مایوس ہونے لگے۔ اندرون بیرون ملک انکی سرگرمیاں اچانک بڑھتی گئیں اور ہر جگہ آرمی اور ریاست کو حدف بناتےگئے مگر پھر کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں ہوا مزاکرات بھی بہت ہوئے لیکن سب ناکام رہے۔ 2018 کے الیکشن میں انکے دو نمائندے بھی قومی اسمبلی پہنچ گئے اب انہیں بہترین پلیٹ فارم ملا تھا وہی سے وہ اپنے جائز مطالبات منوا سکتے تھے اور حقوق بھی لے سکتے تھے لیکن انہوں نے وہی ہر جگہ ریاست اور آرمی کو حدف بتانے گئے۔

حکومت اور فوج دونوں نے انکی جائز مطالبات کو تسلیم کیا مگر انکی لہجے میں کسی بھی طرح کی نرمی نہیں آئی ۔ جب انکے ممبر اسمبلی محسن ڈاور نگ قومی اسمبلی میں فاٹا کے لیے قومی اور صوبای نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا تو حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ملکر قرارداد کی حمایت کی اور 26 ویں آئینی ترمیم کے زریعے قومی اسمبلی کے چھ سیٹوں سے بڑھا کے بارہ کر دی اور صوبائ اسمبلی کے بارہ سے بڑھا کے چوبیس کردی اب صوبائ اور قومی اسمبلی میں بھر پور نمائندگی بھی ملی اور کچھ عرصہ قبل پی ٹی ایم کے وفد کو سینٹ کے قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں بھی بلایا گیا وہ انکی مطالبات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

26 ویں ترمیم کے چند دن بعد جب اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک دس سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل ہوتا ہے بچی کا تعلق مہمنڈ ایجنسی سے تھا سب نے مذمت کی کیونکہ ایسے واقعات سب کے لیے ناقابل قبول ہیں زینب قتل کیس کے بعد ایسے واقعات سب کے لیے انتہائ تکلیف دہ ہیں۔

وہاں جب فرشتہ کے لواحقین نے پولیس رویے کے خلاف دھرنا دیا تو پھر محسن ڈاور اور گلالئ اسماعیل نے اسی دھرنے سے آرمی اور ریاست کو نشانے پے رکھا اب آرمی کا اس معصوم فرشتے کی قتل سے کیا تعلق؟ پھر اب کل کے چیک پوسٹ کا واقعہ دیکھ لیں آئی ایس پی آر کے مطابق محسن ڈاور اور علی وزیر نے قافلے ساتھ مزکورہ چیک پوسٹ پے دھاوا بولا اور مشتبہ دھشت گردوں کو زبردستی رہا کرانے کی کوشش کی جس سے آرمی کے پانچ نوجوان زخمی اور تین لوگ جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔

ہم مان لیتے ہے آئ ایس پی آر جھوٹ کہتا ہے اور انکی بات غلط ہے۔ مگر پی ٹی ایم والے کیا ان سوالات کا جواب دینگے۔ دو منتخب قومی اسمبلی کے ممبران کو مشتعل ہجوم کے ساتھ چیک پوسٹ پے جاکر مردہ باد ذندہ باد کے ساتھ دھرنے کی ضرورت کیوں آئی؟ وہ قومی اسمبلی میں آکر مزکورہ گرفتار افراد کے لیے آواز نہیں اٹھاسکتے تھے؟ کیا دو منتخب ممبران قافلے کے ساتھ چیک پوسٹ پے جانے کی بجائے وہاں کسی زمہ دار جاکر ملاقات کرکے رہائ کا مطالبہ نہیں کر سکتے تھے؟ یا سینٹ کی کمیٹی کو یاداشت نہیں بھیج سکتے تھے ؟

جب اپوزیشن کی افطاری ہوئی اس وقت پی ٹی ایم نے بلاول اور زرداری سے انکے مرد کا بچہ راؤ انوار کیس کا پوچھا؟ سندہ حکومت کیخلاف راؤ انوار کیس میں سست روی پر احتجاج کیا؟ دنیا میں ہر جگہ ہر ملک میں مزاحمتی تحریکیں ہوتی ہیں مگر وہ گالی کے ساتھ نہیں ہوتی ہیں سب سے پہلے وہ اسی ملک کو اپنا تسلیم کرتے پھر وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے نہ کہ وہ اسی ملک کے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیکر رکن اسمبلی بن کے ریاست اور اداروں کو گالیاں دے یا یہ بولیں ہم فلاں ہےفلاں رہینگے۔

پی ٹی ایم جنتی مزید پیچیدہ ہوتی جائیگی اتنی ہی مشکلات اور کمزور ہوتی جائیگی اب سوشل میڈیا کا دور ہیں کسی بھی نوجوان کو زیادہ دیر تک اپنے پروپنگنڈے اور ایجندے پر قائل کرکے رکھنا مشکل ہوگیا ہے وہ بہت ساری آنکھوں بہت کچھ خود دیکھتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں بڑے عرصے بعد امن آیا ہیں آج نہیں تو کل سہی دیر سے سہی قبائلی علاقے کو انکے سب حقوق مل جائینگے لوگوں کو سکھ کا سانس لینے دیں اس طرح گالی اور گولی کے ساتھ ریاست متحمل نہیں ہوسکتی ہیں یا گالی رہیگی یا گولی دونوں صورتوں میں نقصان عام عوام ہیں اسلیے گالی اور گولی کی بجائے امن اور تعمیر وہ ترقی کے لیے پیار و محبت سے لڑنا چاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں