285

ایران پر امریکی پابندیوں کے اثرات

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال اکتوبر میں یک طرفہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام پر تاریخ ساز بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ امریکہ ایران کے جوہری معاہدے پر ازسرنو مذاکرات کرنا چاہتا تھا۔
ایران کی قیادت بظاہر ان پابندیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر تیار نہیں ہے اور پرعزم ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کر لیں گے لیکن ایران کی معیشت پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے شدید اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ایران کی معشیت کئی برس تک اس کے جوہری پروگرام کے سبب بین الاقوامی برداری کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہی۔
سنہ 2015 میں صدر حسن روحانی، امریکہ اور پانچ دوسری بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے پر رضامند ہو گئے تھے جس کے تحت بین الاقوامی پابندیوں کو اٹھائے جانے کے عوض وہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر تیار ہوئے تھے۔
جوہری پروگرام پر معاہدے ہونے کے ایک سال بعد ہی ایران کی معیشت نے تیزی سے ترقی کرنا شروع کر دی اور اس کی مجمودی مقامی پیداوار کی شرح نمو اس کے اپنے مرکزی بینک کے مطابق 12.3 فیصد تک پہنچ گئی۔
ایران کی معیشت میں تیزی کی بڑی وجہ اس کی تیل اور گیس کی صنعت اور برآمدات تھیں لیکن دوسرے شعبوں میں بحالی کا عمل اتنا حوصلہ افزا نہیں رہا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
شرح نمو سنہ 2017 میں گِر کر 3.7 فیصد پر واپس آ گئی جس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی بڑھنے لگی اور گذشتہ برس دسمبر میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے جو ایران میں گذشتہ ایک دہائی میں ہونے والے سب سے بڑے اور وسیع مظاہرے تھے۔
امریکہ کی طرف سے گذشتہ اکتوبر میں اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے سے تیل اور گیس، جہاز رانی اور مالیاتی شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری تقریباً ختم ہو گئی اور اس سے تیل کی برآمدات بھی متاثر ہوئیں۔
امریکہ کی اقتصادی پابندیاں ایران کے علاوہ ان ملکوں، عالمی تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر بھی عائد ہوتی ہیں جو ایران سے لین دین کرتی ہوں۔
عالمی مالیاتی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کا جی ڈی پی سنہ 2018 سکڑ کر 3.9 فیصد رہ گیا۔
آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق سنہ 2019 کے اپریل کے آخری تک ایران کی معیشت مزید چھ فیصد کی کمی واقع ہو گی۔ یہ اندازے اقتصادی پابندیوں سے استثنیٰ کی مدت ختم ہونے سے پہلے لگائے گئے تھے۔
تیل کی برآمدات آدھی رہ گئی ہیں
تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 کے شروع میں خام تیل کی پیداوار تین اعشاریہ آٹھ ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔ ایران اس وقت دو اعشاریہ تین ملین بیرل یومیہ فروخت یا برآمد کر رہا تھا۔
ایران کے تیل کی برآمدات کا بڑا حصہ وہ آٹھ ملک اور خودمختار خطے خرید رہے تھے جن کو اکتوبر میں امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابنیدوں سے چھ ماہ کا عارضی استثنیٰ دیا گیا تھا۔ ان ملکوں میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، ترکی، یونان اور اٹلی شامل تھے۔
اس سال مارچ تک ایران کی تیل کی برآمدات ایک اعشاریہ ایک ملین بیریل یومیہ پر آ گئی تھیں۔
اس مدت کے دوران ان ممالک کو ایران سے تیل کی خریداری میں کمی کرنا تھی اور اسی صورت میں وہ امریکی پابندیوں کے خطرے سے بچ کر ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ اپنا لین دین جاری رکھ سکتے تھے۔
مارچ سنہ 2019 تک ایران کے تیل کی برآمدات گِر کر ایک اعشاریہ ایک ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ تائیوان، یونان اور اٹلی نے مکمل طور پر ایران سے تیل کی خریداری بند کر دی تھی۔ جب کہ چین اور انڈیا نے ایران سے تیل کی خریداری بالترتیب 39 فیصد اور47 فیصد کم کر دی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس سے ایران کو تقریباً دس ارب ڈالر کی آمدن کم ہوئی ہے۔

ایران سے تیل کی خریداری پر استثنیٰ کے ختم ہونے کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کی تیل کی فروخت میں اور کتنی کمی آئے گی۔
چین نے کہا ہے کہ ایران سے تیل کی خرید و فروخت مکمل طور پر جائز اور قانونی ہے اور امریکہ کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق یا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ترکی نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے ہمسائے سے تعلق نہیں بگاڑ سکتا۔
ایران اپنی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیل برآمد کر سکتا ہے اور چوری چھپے تیل فروخت کر کے امریکی پابندیوں سے بھی بچ سکتا ہے جیسا کہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی تیل کی فروخت کو چھپ چھپا کر جاری رکھے ہوئے ہے۔
صدر روحانی ایران کی کرنسی کو چار سال تک مستحکم رکھنے میں کامیاب رہے۔ لیکن کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں تقریباً ساٹھ فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔
سرکاری ریٹ جو بیالیس ہزار ریال فی ڈالر ہے وہ صرف محدود لین دین کے لیے ہی دیا جاتا ہے۔ کرنسی کی بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرنسی کا کاروبار کرنے والے ایک ڈالر کے ایک لاکھ ترتالیس ہزار ریال دے رہے ہیں۔
ریال کی قدر میں کمی کا تعلق براہ راست ایران کی معشیت سے ہے اور غیر ملکی کرنسی کی طلب میں زبردست اضافہ ہے کیونکہ عام ایرانیوں کو اس بارے میں شدید تشویش ہے کہ ریال کی قدر میں کمی کی وجہ سے ان کی جمع پونجی کی قدر بھی ختم ہو جائے گی۔
ستمبر 2018 کے بعد ایرانی ریال کی قدر میں کچھ بہتری آئی تھی۔ اس وقت ایک ڈالر کی قدر ایک لاکھ نوے ہزار ریال تک پہنچ گئی تھی تو پھر ایران کے مرکزی بینک نے ریال کی قدر بہتر کرنے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر ڈالے تھے۔
ایران کے زرمبادلہ کے مسائل اس کی درآمدات پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں اور اسے روزمرہ کی اشیا خریدنے میں بھی مشکالات کا سامنا ہے۔
صدر روحانی سنہ 2017 میں افراط زر کی شرح کو نو فیصد تک رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق سنہ 2018 میں اس کے بڑھنے کی شرح 31 فیصد رہی اور اس کا اندازہ ہے کہ اگر تیل کی برآمدات گرتی رہیں تو اس سال یہ 37 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ریال کی قدر میں شدید کمی کی وجہ سے بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں کے علاوہ مقامی سطح پر بنائی جانے والی اشیاء اور اشیائے خردونوش پر بھی پڑی ہیں۔ گذشتہ 12 ماہ میں گوشت اور پولٹری کی قیمتوں میں 57 فیصد، دودھ، دہی اور انڈوں کی قیمتوں میں 37 فیصد اور سبزیوں کی قیمتوں میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے کام کردہ سٹوروں پر جہاں کھانے پینے کی اشیا رعائتی نرخوں پر فروخت کی جاتیں ہیں ان پر لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگی ہیں۔ خوراک کی قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے حکومت نے مویشیوں کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں مویشی بیرونی ممالک سے درآمد کیے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں ایران کے کاشت کار ہمسایہ ملکوں میں گوشت فروخت کر رہے ہیں تاکہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکے۔ ایران میں مستحقین کو الیکٹرانک واؤچر دینے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں