299

دانشمندی کا تقاضا

پنجابی کی مثال مشہور ہے، ٹیڈ نالوں گوڈے اگے نیئی ہوندے، اسکا مطلب ہے انسان کے گھٹنے اسکے پیٹ سے پہلے نہیں ہوسکتے، یہ مثال اس وقت دی جاتی ہے جب کوئی انسان اپنا ذاتی مفاد چھوڑ کر کسی دوسرے کے مفاد کیلئے تگ ودو کرنا شروع کردیتا ہے، اور اگر وہ دوسرا جواب میں اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے، اپنے وقتی مفاد کیلئے پہلے شخص کے دشمنوں کو گلے لگا لے، تو ایسی صورت میں پہلے شخص کیلئے صرف دو صورتیں باقی بچتی ہیں، یا تو وہ بیوقوف اور احمق بن کر دوسرے مفاد پرست شخص کیلئے کام کرتا رہے، یا اپنی عقل اور اپنا مفاد سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لے۔

فلسطین عربوں کا علاقائی تنازعہ ہے اور عرب اسرائیل دشمنی کی بنیادی وجہ ہے، پاکستان کی اسرائیل سے نہ تو کوئی سرحد ملتی ہے اور نہ ہی اسرائیل نے کبھی کسی پاکستانی علاقے پر قبضہ کیا ہے، پاکستان نے عربوں کی محبت میں ابھی تک نہ صرف اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار نہیں کیئے، بلکہ اسے اپنا اعلانیہ دشمن بھی ظاہر کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف کشمیر بھی فلسطین کی طرح پاکستان اور انڈیا کے درمیان علاقائی تنازعہ ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گزشتہ 70 سال سے حل طلب ہے۔ انڈیا لگاتار معصوم کشمیری مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے، لاکھوں کشمیری مسلمان شہید کر دیئے گئے ہیں، ہزاروں مسلمان خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی ہے، پیلیٹ گنوں سے ہزاروں خواتین اور بچوں کے چہرے بگاڑ دیئے گئے ہیں، اب انڈیا آئین کا آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے کشمیری مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے جارہا ہے، پاکستان نے ان مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے انڈیا سے اپنے سفارتی تعلقات تک ختم کردیئے ہیں، دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں، ایسے وقت میں بجائے اسکے کہ سعودی عرب امت مسلمہ کے رہنما کی حیثیت سے پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کرتا، سعودی عرب انڈیا میں انڈین تاریخ کی سب سے بڑی 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے، سعودی شاہی خاندان کی ملکیت آئل کمپنی آرامکو انڈین آئل کمپنی ریلائنس کیساتھ انڈیا میں 75 ارب ڈالر کی انوسٹ منٹ کررہی ہے۔

اگر سعودی عرب اپنے مفاد میں اندھا ہو کر انڈیا سے محبت کی پینگیں بڑھا سکتا ہے تو پاکستان اپنے مفاد کی خاطر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیوں قائم نہیں کرسکتا، ہماری اسرائیل سے دشمنی صرف عربوں کی وجہ سے ہے، جب عربوں نے ہی اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے ہمارے دشمن سے دوستی کر لی ہے تو ہمیں اپنے مفاد کیلئے سوچنے سے کیا چیز منع کر رہی ہے، ہم کیوں اپنے دشمنوں میں اضافہ کر رہے ہیں، مسلم اُمّہ اپنی موت آپ مر چکی ہے، ہر ملک اپنے مفاد کے بارے میں سوچ رہا ہے، ایسے ماحول میں پاکستان کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے صرف اپنے مفاد کے بارے میں سوچنا چاہئیے، پنجابی کی مثال کیمطابق، ٹیڈ نالوں گوڈے اگے نیئیں ہوندے، پاکستان کو اپنی بقا اور خوشحالی کو سامنے رکھتے ہوئے جلد از جلد اسرائیل سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سفارتی تعلقات استوار کرلینے چاہئیں، شاید ایسا کرنے سے سعودی عرب کو اپنے کیئے پر کچھ پچھتاوا ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں