311

گاڑیوں میں ایئربیگ کا نظام

گاڑیوں کے اندر موجود ایئر بیگ کا نظام ڈرائیور اور دوسرے مسافروں کیلئے ایک ایسا مزاحمتی نظام ہوتا ہے، جس میں گاڑی کسی چیز سے ٹکرانے کی صورت خاص قسم کے ڈیزائن کیئے گئے بیگز میں اچانک خودکار طریقے سے ہوا بھری جاتی ہے، اور جلد ہی خارج بھی ہوجاتی ہے، اسکا مقصد اس حرکی توانائی کے اثر کو زائل کرنا ہوتا ہے، جو گاڑی اچانک ٹکرانے کی صورت میں گاڑی کے اندر موجود افراد میں پیدا ہوتی ہے۔

گاڑیوں میں 1970 کے عشرے میں ڈرائیور کے سامنے ایئر بیگ لگانے کا تجربہ کیا گیا، جو زیادہ کامیاب نہ ہوسکا اور اس دوران ہونے والے حادثات میں بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، 1980 کے عشرے میں گاڑی کے سامنے والے پینل میں سٹیرنگ کے درمیان اور ساتھ والے مسافر کے سامنے کامیابی کے ساتھ ایئر بیگ لگائے گئے، جس سے بہت زیادہ انسانی زندگیاں بچائی گئیں، اس وقت دنیا کے تمام فرسٹ ورلڈ ممالک میں سیٹ بیلٹ اور ایئر بیگ فنکشن کے بغیر گاڑی کا سڑک پر لانا جرم تصور کیا جاتا ہے، نئی گاڑیوں میں چھ سے آٹھ ایئر بیگ لگائے جاتے ہیں جو ایکسیڈنٹ کی صورت میں نہ صرف ڈرائیور بلکہ تمام مسافروں کو بھی شدید قسم کی چوٹوں سے بچاتے ہیں، یہ ایئربیگز سٹیرنگ، سامنے والے چھوٹے پلرز، فرنٹ اور بیک دروازوں کے اطراف اور بعض گاڑیوں میں سیٹ بلیٹ کے ساتھ بھی لگائے جاتے ہیں۔

راقم نے چودہ سال پہلے سویڈن آنے کے بعد طالب علمی کے دور میں پہلی گاڑی ہونڈا سوِک 1989 ماڈل پرانی گاڑی خریدی تھی، اسکے سٹیرنگ اور ساتھ والی سیٹ کے سامنے دو ایئربیگز لگے ہوئے تھے، اب میرے پاس سات نشستوں والی ٹیوٹا ورسو نئی گاڑی ہے جس میں آٹھ ایئربیگز لگے ہوئے ہیں جو حادثے کی صورت میں ڈرائیور کے ساتھ ساتھ چھ دوسرے افراد کے سامنے اور اطراف میں بھی کھل سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے کینیڈا میں ایک بہت قریبی عزیز کا ٹیوٹا برانڈ کی گاڑی چلاتے ہوئے حادثہ ہوا اور فوراً ایئربیگز کھل کر ہوا سے بھرے اور پھر خالی ہوگئے، گاڑی سامنے سے بُری طرح ڈیمیج ہوگئی، لیکن ڈرائیور کو کچھ نہیں ہوا، سوائے اسکے کہ گاڑی پھینکنی پڑ گئی اور اپنی غلطی پر پولیس کی طرف سے ہونے والا تین سو ڈالرز کا جرمانہ علیحدہ ادا کرنا پڑا۔ ذرا سوچیں اگر وقت سامنے اور اطراف سے ایئربیگز نہ کھلتے تو گاڑی کے ساتھ ساتھ خدا نخواستہ جسمانی یا زندگی کا نقصان بھی ہوسکتا تھا۔

گزشتہ روز پاکستان میں لالہ موسٰی کے نزدیک پی پی پی کے سابقہ وفاقی وزیر اور مشہور سیاستدان قمر زمان کائرہ صاحب کا جواں سال بیٹا کار حادثے میں اپنے دوست کے ساتھ ہلاک ہوگیا، موصوف ٹیوٹا برانڈ کی گاڑی چلا رہا تھا، اور زیادہ سپیڈ ہونے کی وجہ سے گاڑی بےقابو ہو کر سڑک کے ایک طرف موجود درخت سے ٹکرا گئی جس سے سامنے بیٹھے دونوں حضرات موقعہ پر ہی ہلاک ہوگئے، حیرت کی بات ہے کہ ٹیوٹا کمپنی کی گاڑی ہونے کے باوجود ایئربیگز نہیں کھلے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود ٹیوٹا گاڑیوں اور ترقی یافتہ ممالک میں موجود ٹیوٹا گاڑیوں میں فرق ہے، پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے چور بازاری ہے اور گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنی من مانی کرتی ہیں اور یا تو گاڑیوں میں ایئربیگز لگائے ہی نہیں جاتے اور اگر لگائے بھی جاتے ہیں تو سستا میٹیریل ہونے کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتے اور نتیجتاً حادثات کی صورت میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

جناب کائرہ صاحب پی پی پی کے سب سے قابل اور ذہین سیاستدان ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز رہے ہیں، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کار حادثے میں ایئر بیگز نہ ہونے یا گھٹیا میٹریل سے بنے ہونے کی وجہ سے انکے اپنے جواں سال بیٹے نے ہلاک ہوجانا ہے، تو یہ یا تو اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیتے یا گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں پر ایئربیگز اور سیٹ بیلٹ جیسے حفاظتی نظام کو بزور طاقت لاگو کرنے کی قانون سازی کرتے، ایسی صورت میں آج انکا اپنا لخت جگر جوانی میں موت کا شکار نہ ہوتا۔

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں