801

نرسنگ پروفیشن اسلام اور مغربی دنیا کی نظر میں

اگر یہ کہا جائے کہ پہلا اسلامی نرسنگ سکول نبی صلی اللہ وسلم کی نگرانی میں شروع ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ تاریخ اسلام کی پہلی پیشہ ور نرس کا نام روفائدہ بنت سعد تھا انہیں روفیدہ ال اسلمیہ بھی کہا جاتا تھا، وہ مدینہ کے بنی اسلم قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں اور 620 عیسوی میں مدینہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ روفائدہ نے طب کا علم اور تربیت اپنے والد سے حاصل کی جو اس وقت کے ایک بڑے معالج تھے اور باقاعدگی سے روفائدہ کی تربیت اور مدد کیا کرتے تھے۔ مدینہ میں پہلی دفعہ جب محمد صلی اللہ وسلم اپنے ابتدائی پیروکاروں کے ساتھ جنگ کیلئے گئے تو وہ زخمیوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے رضاکار نرسوں کے ایک گروپ کو لیکر خود میدان جنگ میں تشریف لے گئیں۔ مدینہ میں مسلم ریاست کے قیام کے بعد، اسے محمد صلی اللہ وسلم نے بیماروں کے علاج کے لئے مسجد نبوی کے باہر خیمہ لگانے اور زیادہ سے زیادہ مسلم خواتین اور لڑکیوں کو نرسنگ کی تعلیم و تربیت دینے کی اجازت دی تھی، اس خیمہ نما ہسپتال اور سکول کو اسلام میں پہلے نرسنگ سکول کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخی حوالوں سے روفائدہ کو ایک ایسی خاتون کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ایک مثالی نرس کی خصوصیات کی حامل تھی اور انہیں ایک ہمدرد، ایک اچھی رہنما اور ایک عظیم استاد کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے، اس نے سینکڑوں خواتین کو بنیادی صحت کی تعلیم فراہم کی ، معاشرے کے پسماندگان یعنی یتیموں اور معذوروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی، انہیں بیماریوں سے بچانے کیلئے انکی نگہداشت کی، اور انکا سب سے بڑا کارنامہ نرسنگ کیلئے دنیا کے پہلے ضابطہ اخلاق کا مسودہ بھی تیار کرنا تھا۔

ماڈرن یورپ میں انگلش نرس فلورنس نائٹنگیل نے نہ صرف جدید نرسنگ کی بنیاد رکھی بلکہ نرسنگ کے موضوع پر ایک کتاب نوٹس آن نرسنگ بھی لکھ دی جو آج بھی نرسنگ کی ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔ وہ برطانیہ سے کریمین کی جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے 1855 میں کریمیا پہنچی تھی، یہ جنگ سلطنت عثمانیہ اور اسکے اتحادی برطانیہ اور فرانس نے روس کے خلاف لڑی تھی اور اس میں روس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، فلورنس یہاں “دی لیڈی ود لیمپ” کے نام سے مشہور ہوئی، وہ دن رات زخمیوں کی عیادت اور ان کی مدد کرتی تھی۔ کریمیا میں اس نے نرسوں کے ایک گروپ کو تربیت بھی دی تھی جنکی ذمہ داری زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال کرنا تھی، جنگ کے بعد جب وہ قسطنطنیہ میں واقع برطانوی ہسپتال سکاٹاری پہنچی تو اسے وہاں موجود ہسپتال ایک خوفناک حالت میں ملا جہاں حفظان صحت کے اصولوں کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا تھا، ہسپتال گندا تھا اور چوہوں سے بھرا ہوا تھا، ادویات کی سپلائی ، کھانا ، یہاں تک کہ پانی کی فراہمی بھی کم تھی۔ نرس فلورنس نے پورے اسپتال کی صفائی کا اہتمام کیا، مطلوبہ سامان کی فراہمی کا حکم دیا، اور انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہاتھ دھونے جیسے حفظان صحت کے طریقہ کار کو نافذ کیا۔ انکی گراں قدر کوششوں کی وجہ سے ہسپتال میں نہ صرف اموات کی شرح میں نمایاں کمی آنے لگی بلکہ انکے کام سے متاثر ہوکر حکومتی ممبران نے 1855 میں نرسوں کی تعلیم تربیت کیلئے ایک فنڈ بھی قائم کردیا جس میں مختصر عرصے کے دوران ہی 1856 میں 44 ہزار پونڈ کی رقم جمع ہوگئی جسکی مالیت آج کے زمانے میں تقریباً دو ملین پاؤنڈ کے برابر بنتی ہے۔اتنی بڑی رقم کے ملنے پر نرس فلورنس نے سینٹ تھامس اسپتال میں نرسنگ ٹریننگ سکول کی بنیاد رکھ دی اور 1860 میں اس ادارے سے نرسوں کی پہلی کھیپ کی تربیت ہونا شروع ہوگئی۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والی نرسوں کو نرس فلورنس کی خدمات کی وجہ سے انکے نام کی مناسبت سے نائٹنگ گیلز بھی کہا جاتا تھا۔

جس طرح ساری دنیا میں اب بھی نرسنگ کی پڑھائی کے دوران فلورنس ٹائیٹنگیل کے بارے میں لازمی پڑھایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح مسلم ممالک میں بھی رفائیدہ بن سعد کے بارے میں ضرور پڑھایا جانا چاہئیے۔ مسلمانوں کو نرسنگ کے شعبے کی زیادہ عزت اس لئے بھی کرنی چاہئیے کیونکہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں نبی صلی اللہ وسلم نے خود اپنی نگرانی میں اس شعبے کی بنیاد رکھوائی، لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک اور خاص طور پر پاکستان میں اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے، انہیں معاشرے میں اتنی عزت نہیں دی جاتی جتنی عزت کی وہ حقدار ہیں۔ پاکستان میں عام لوگ نرسوں کو ڈاکٹر کی اسسٹنٹ سمجھتے ہیں جو ایک انتہائی غلط بات ہے، حقیقت میں نرسوں اور ڈاکٹرز کی تعلیم برابر ہوتی ہے کیونکہ دونوں نے گریجوایشن کی ہوئی ہوتی ہے، ڈاکٹر میڈیکل کو زیادہ تفصیل سے پڑھتے ہیں جبکہ نرسیں میڈیکل کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ہیلتھ اور مریضوں کی دیکھ بھال سے متعلقہ شعبوں کے بارے میں بھی زیادہ تفصیل سے پڑھتی ہیں، ڈاکٹر اور نرس کے دونوں شعبے الگ الگ ہوتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرتے ہیں، ایسے میں ڈاکٹر کا اپنے آپ کو باس سمجھنا یا لوگوں کا نرس کو ڈاکٹر کی اسسٹنٹ سمجھنا انتہائی غلط باتیں ہیں کیونکہ ایک نرس اگر نرسنگ میں ماسٹر ڈگری یا پی ایچ ڈی کرلے تو اسکی تعلیم عام ڈاکٹر سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 90 لاکھ نرسوں کی شدید کمی ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 13 لاکھ نرسوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر تین ڈاکٹروں کے ساتھ ایک نرس کام کررہی ہے، جو ضروریات کے حساب سے انتہائی کم ہے۔ ایک نرس صرف ہسپتال میں مریضوں کا علاج ہی نہیں کرتی بلکہ کمیونٹی سروس کے ذریعے بیماریوں کی روک تھام کے لیے پبلک اویرنس کا کام بھی کرتی ہے۔

انٹرنیشنل ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائف (International Year of the Nurse and the Midwife ) تنظیم عالمی ادارہ صحت (WHO)، اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ، نرسنگ ناؤ ، انٹرنیشنل کونسل آف نرسز اور انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف مڈوائفس کے ساتھ اشتراک سے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم نے دنیا بھر کے 43 ممالک سے ممتاز اور متحرک ترین ایسی 100 نرسوں اور مڈوائفس کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے 2020 میں صحت عامہ کی بہتری کیلئے بہترین کام کیا ہے، اس فہرست میں پاکستان کی آٹھ نرسز کو بھی شامل کیا گیا ہے، 2020 کی اس عالمی فہرست میں شامل تمام آٹھ پاکستانی نرسز خواتین آغا خان یونیورسٹی سکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری سے فارغ التحصیل ہیں اور کچھ بطور اساتذہ اس ادارے کیساتھ کام بھی کررہی ہیں۔ پاکستانی خواتین کو ٹیچنگ، ڈاکٹر، فارماسسٹ اور بنکاری کے شعبے کی طرح نرسنگ کے شعبے کو بھی اپنے کیریر کا حصہ بنانا چاہئیے، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی سب مل کر نرسنگ کے شعبے کو اتنی ہی عزت دیں جتنی عزت اس شعبے کو ترقی یافتہ مغربی ممالک میں دی جاتی ہے۔

#طارق_محمود