352

پاکستان غریب کیوں ہے

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے پانچ سال ملک پر حکومت کرنے کے بعد اچانک یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا ہے کہ اب ان کے پاس اپنے کام کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے کافی کچھ باقی نہیں رہا اور وہ جس چیز کو بہت یاد کریں گی وہ لوگ ہیں کیونکہ لوگوں کے لیے کام کرکے انہیں خوشی ہوتی تھی۔ اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے بعد ایک سادہ سی تقریب میں اپنے سٹاف سے گلے مل کر وہ اپنے دفتر سے رخصت ہوگئیں اور انکی ہی جماعت کے کرس ہپکنز جسے لوگ چپی بھی کہتے ہیں نیوزی لینڈ کے نئے وزیراعظم بن گئے۔

دوسری طرف برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کے بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں کہ انہوں نے اپنے دورہ حکومت میں اپنے ذاتی مالی مسائل پر قابو پانے کیلئے آٹھ لاکھ پاؤنڈ اپنے ایک امیر کزن کی ضمانت پر بنک سے قرض لئے تھے کیونکہ ویز اعظم کی تیرہ ہزار پاؤنڈ ماہانہ تنخواہ پر انکا گزارہ نہیں ہورہا تھا، اس سے کہیں زیادہ پیسے تو وہ ڈیلی ٹیلی گراف میں کالم لکھ کر کما لیتے تھے وزیراعظم بننے پر کالم لکھنے کے 22 ہزار پاؤنڈ ماہانہ اور مختلف تقریبات میں مہمان سپیکر کے طور پر بھاری معاوضے کے پیسے بھی بند ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم کے سٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے انکے اخراجات زیادہ تھے، مزے کی بات ہے کہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے اوپر انکے سرکاری فلیٹ کی مرمت اور آرائش کیلئے ایک ڈونر نے 52000 پاؤنڈ خرچ کیئے تھے جسے بورس جانسن نے واپس کرنا تھا اور موصوف کو اپنی پہلی بیوی مرینا کو طلاق دینے پر لاکھوں پاؤنڈز کی رقم بھی ادا کرنا پڑی تھی۔

پیارے پاکستانیو!!! آپکو یہ باتیں عجیب لگ رہی ہونگی کیونکہ یہ گورے پاگل لوگ ہیں عجیب حرکتیں کرتے ہیں اتنے امیر ممالک کے وزیراعظم بن کر بھی خود امیر نہیں ہوتے بلکہ الٹا مقروض ہوجاتے ہیں جبکہ انکے مقابلے میں ہمارے صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبران، ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے ججز، بیورکریٹس یا فوجی جنرل مالی طور ہر نہ صرف زیادہ خوشحال ہوتے ہیں بلکہ بیشمار جائدادوں کے مالک بھی بن جاتے ہیں اور انکے بچے امریکہ کینیڈا برطانیہ جاکر وہاں کے وزیرِاعظموں کے بچوں سے زیادہ شاہانہ انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ذہن پر ہلکا سا زور دیں تو آپکو باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان مقروض اور غریب ترین ملک جبکہ مغربی ممالک امیر ترین کیوں ہیں وجہ اداروں کا اپنے اختیارات کے اندر کام کرنا اور لوگوں کی ایمانداری ہے۔ پیارے پاکستان میں بدقسمتی سے نہ صرف آبادی کا ایک بڑا حصہ بے ایمان اور جھوٹا ہے بلکہ ایک خاص ادارے کے چند لوگ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر اپنے مفاد کیلئے ملک کا بیڑا غرق کرنے کو بھی ہر دم تیار نظر آتے ہیں، سیاستدانوں کی اکثریت بےایمان اور کرپٹ ہے اور کوئی بھی ادارہ اپنا اصل کام کرنے کو تیار نظر نہیں آتا، لہذا یہاں ملکی لیول پر تو کوئی فوری تبدیلی آنے کے آثار نظر نہیں آتے لیکن اگر انفرادی طور پر لوگ ایماندار ہو جائیں اور سچ بولنا شروع کردیں اور ملک کا نوجوان طبقہ بیدار ہوجائے اور اپنے ملک کیلئے کچھ کرنے کی ٹھان لے تو ملک میں تبدیلی کی ایک ایسی ہوا چل سکتی ہے جو انشااللہ مستقبل میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کردے گی، انشااللہ!!!

#طارق_محمود