132

بچوں کی تربیت اور معاشرے پر اثرات

یہ ایک معمولی سا ٹریفک حادثہ تھا جو مجھے زندگی بھر کے لئے ایک سبق دے گیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میں اپنے 13 سالہ بیٹے کے ساتھ اپنی گاڑی میں خریداری (شاپنگ) کے لئے جا رہا تھا۔یہ بہار کا موسم تھا دن بہت خوشگوار تھا۔ ویسٹ لندن میں شاپنگ سنٹر کی طرف مڑتے ہوئے ایک گورے نوجوان نے میری کار کے پیچھے موٹر سائیکل دے ماری۔ ظاہر ہے قصور میرا نہیں تھا لیکن موٹر سائیکل سوار بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں تھا چنانچہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ موٹر سائیکل سوار نے کہا کہ کار ڈرائیور موبائل فون پر کسی سے بات کر رہا تھا اور اس نے موڑ کاٹتے ہوئے پیچھے آنے والی ٹریفک پر دھیان نہیں دیا اس لئے یہ حادثہ ہوا۔ جج نے پوچھاکیا حادثے کے وقت کار میں ڈرائیور کے علاوہ بھی کوئی موجود تھا، عدالت کو بتایا گیا کہ ایک نوجوان لڑکا اگلی نشست پر بیٹھا ہوا تھا میں نے تصدیق کی کہ وہ میرا بیٹا تھا۔ جج نے پوچھا کیا حادثے کے اس گواہ سے فون پر بات ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا ہو سکتی ہے۔ میرے بیٹے کو فون ملایا گیا اور عدالت نے اس سے اتنا استفسار کیا کہ حادثے کے وقت کار ڈرائیور موبائل فون پر کسی سے بات کر رہا تھا؟ تو میرے بیٹے نے تصدیق کی کہ میرے والد حادثے کے وقت فون پر بات چیت کر رہے تھے۔ اس گواہی کے بعد فیصلہ موٹر سائیکل سوار کے حق میں ہو گیا۔ عدالت سے گھر واپس آکر میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تم نے جج کو فون پر یہ کیوں بتایا کہ میں حادثے کے وقت موبائل فون استعمال کر رہا تھا؟ میرے بیٹے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی مجھ سے جو پوچھا گیا میں نے اس کا بالکل صحیح جواب دے دیا۔

یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے کچھ عرصہ پہلے سنایا اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ ”برطانیہ میں پرائمری سکولوں سے ہی بچوں کی اس طرح تربیت کی جاتی ہے کہ انہیں سچ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے بات بات پر جھوٹ بولنے یا غلط بیانی کرنے کی خصلت اُن کے مزاج کا حصہ نہیں بنتی اس لئے اگر کبھی اُن کی گواہی کی ضرورت پیش آئے تو وہ صرف وہی بیان دیتے ہیں جو حقیقت اور سچ پر مبنی ہو چاہے اس کی زد میں اُن کا کوئی عزیز یا والدین ہی کیوں نہ آ جائیں“۔ مشاہدے میں آیا ہے برطانیہ کے پرائمری سکولوں میں جو باتیں بچوں کو سکھائی جاتی ہیں اور جن کاموں کی عادت ڈالی جاتی ہے وہ زندگی بھر اُن کے کام آتی ہیں یہاں بچوں کو نرسری اور پرائمری سکولز سے ہی یہ عادت ڈالی جاتی ہے کہ وہ ہائی جین یعنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، وقت کی پابندی کریں، قطارمیں اپنی باری کا انتظار کریں، اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی کی گود میں نہ بیٹھیں چاہے وہ کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو، کسی اجنبی یا جاننے والے کو اپنے جسم کے کسی پرائیویٹ حصے کو چھونے کی اجازت نہ دیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اپنے استاد یا والدین کو فوراً اس کی شکایت کریں، کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہ کھائیں۔ اپنے سے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کی اقدار،مذھب اور ثقافت کا احترام کریں۔یہ وہ چند بنیادی چیزیں ہیں جن کو ابتدائی عمر میں ہی بچوں کی شخصیت اور مزاج کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ تمام عادات زندگی بھر اُن کے کام آتی ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں بچوں کی نرسری اور پرائمری تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ابتدائی عمر کے اس حصے میں بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیجاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ تربیت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس ملک کے ماہرین تعلیم کو اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہے کہ آج جو پنیری وہ لگا رہے ہیں کل اس نے تناور درخت یا پیڑ بن کر پھل اور چھاؤں کی فراہمی کا ذریعہ بننا ہے۔ بچے معصوم اور موم کی طرح ہوتے ہیں ابتدائی عمر میں اُن کی حفاظت ضروری ہے اور انہیں اسی مرحلے پر کسی بھی قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ آج کے برطانوی معاشرے میں ہمیں جو نظم و ضبط، قانون کی پاسداری، مذہبی ہم آہنگی اور انصاف کی بالا دستی نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ ہی ابتدائی عمر کی تعلیم و تربیت ہے۔ جو قومیں اور ملک اپنے بچوں کو پرائمری تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں وہاں معاشرتی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں اگر پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جائے گی کہ وہاں بچوں کی پرائمری تعلیم و تربیت کبھی کسی حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہی بالخصوص پاکستان میں 2 کروڑ سے زیادہ بچے ایسے ہیں جنہیں کبھی کسی پرائمری سکول جانے کا موقع نہیں ملا۔ تعلیم و تربیت سے محروم یہ بچے بڑے ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں یا کریں گے اس کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جس تیزی سے جرائم، مہنگائی، بدامنی، ناانصافی، بے روزگاری اور دیگر مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اُن سے نجات کے لئے لازمی ہے کہ ہم اپنے ملک کے بچوں کی پرائمری تعلیم و تربیت کو اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھیں۔ ہم آج جو پودے لگائیں گے اور اُن کی پوری دیکھ بھال کریں گے تو آنے والے بیس پچیس برس بعد یہ پنیری تناور درخت اور پیڑ بن کر ہمیں پھل اور چھاؤں فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ طرز عمل بہت عام ہے کہ جب چھوٹا بچہ گھر والوں کی ناک میں دم کرنے لگے تو والدین اُسے سکول داخل کروا دیتے ہیں اور پھر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کی ہے۔ سکول میں داخلے سے پہلے والدین کو بچے کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بچہ سکول جانے سے پہلے سیکھنے کی جس عمر میں ہوتا ہے وہ ایک بہترین وقت ہوتا ہے کہ اسے تربیت کے بہترین مراحل سے روشناس کرایا جائے۔ گوروں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو 16 یا 18 سال کی عمر میں اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں کہ اب وہ خود مختار ہو گئے ہیں اس لئے اپنی زندگی بلکہ عملی زندگی کا آغاز اپنے طور پر کریں۔ درحقیقت مغربی معاشروں میں بچوں کو 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اس قدر خود اعتما بنا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز والدین کے سہارے کے بغیر ہی کر سکیں جبکہ پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شادی کے بعد بھی والدین کے آسرے اور مالی وسائل کے سہارے زندہ رہتی ہے۔ میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو اپنے گھر کی اُن خواتین کو جو کہ بچوں کی مائیں ہیں یہ ضرور تلقین کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے علاوہ کسی عزیز یا رشتے دار تک کی گود میں نہ بیٹھنے دیں، کسی کو اپنے بچوں کا منہ چومنے یا گلے لگانے کی اجازت نہ دیں۔ چھوٹے بچوں کو ک بھی کسی نوکر یا ملازم کے ساتھ اکیلا باہر نہ جانے دیں اور نہ ہی انہیں گھر میں نوکر یا نوکرانی کے ساتھ اکیلا چھوڑیں، کبھی چھوٹے بچوں  کو سودا سلف لانے کے لئے محلے کی کسی دکان پر نہ بھیجیں اور نہ ہی بچوں کو سکول سے لانے یا لے جانے کی ذمہ داری کسی کو سونپیں۔ برطانیہ میں آج تک میں نے کسی چھوٹی عمر کے بچے کو اکیلے آواہ گردی کرتے ہوئے نہیں دیکھا اگر کسی پارک یا گلی محلے میں پولیس کو کوئی اکیلا بچہ آوارہ گردی کرتے ہوئے نظر آ جائے تو فوراً اس سے پوچھ گچھ کر کے گھر پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے کیونکہ برطانیہ ہو یا پاکستان شیطانی فطرت والے لوگوں کے لئے آسان ہدف معصوم بچے ہی ہوتے ہیں۔برطانیہ کے پرائمری سکولوں میں بچوں کو سچ بولنے کی جو عادت ڈالی جاتی ہے اس کی وجہ سے برطانوی عدالتوں کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے یعنی اگر کسی ایسی سڑک یا عوامی مقام پر کوئی ٹریفک حادثہ یا جرم ہوا ہو جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہوں تو پولیس اس جگہ پر نوٹس لگا دیتی ہے کہ مجرموں کا پتہ لگانے کے لئے چشم دید گواہوں کی ضرورت ہے اگر کسی نے اس جگہ جرم یا حادثے کو دیکھا ہو تو وہ گواہی کے لئے پولیس ہیلپ لائن پر رابطہ کرے۔ ا س نوٹس کی وجہ سے پولیس کی مدد اور عدالت میں گواہی کے لئے کوئی نہ کوئی چشم دید گواہ ہیلپ لائن پر ضرور رابطہ کرتا ہے۔ برطانیہ میں کوئی بھی شخص پولیس کی مدد اور عدالت میں گواہی دینے سے نہیں ہچکچاتا۔ اس لئے عدالتوں کو انصاف کی فراہمی میں آسانی اور سہولت سے ثبوت میسر آ جاتے ہیں جبکہ پسماند ہ ملکوں میں جہاں لوگ مقدس کتابوں پرہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہی دیتے ہوں اور عدالتوں کے احاطے میں کرائے کے گواہ دستیاب ہوں وہاں انصاف کے تقاضے کس طرے پورے ہو سکتے ہیں۔ جو معاشرے انصاف سے محروم ہو جائیں انہیں زوال اور تباہی و بربادی کی دلدل میں دھنسنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

٭٭٭