314

سول ملٹری تعلقات اور پاکستان

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات شدید بحران کا شکار رہیں ہیں جس کی وجہ ملڑی اسٹبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کو قرار دیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک فوج تقریبا ساڑھے تین دہائیوں تک برسراقتدار رہی ہے تو دوسری طرف سویلین حکومتوں میں بھی دفاعی اور خارجی معاملات کے علاوہ فوج داخلی معاملات کو کنٹرول کرتی رہی ہے۔ اسلامی ممالک میں مصر اور ترکی کی طرح پاکستان میں بھی فوج کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے اسلئے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ الیکشن میں جس طرف اسٹبلشمنٹ اپنا وزن ڈال دے وہی پارٹی کامیابی حاصل کر تی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست یا سیاسی انجینئرنگ کا الزام بھی دیا جاتا ہے۔ پچھلی حکومتوں میں سول ملٹری تعلقات کشمکش کا شکار رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں میمو گیٹ سکینڈل کے بعد سول ملٹری تعلقات تناؤ کا شکار ہوئے تو نون لیگ کے دور میں ڈان لیکس اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دوری کا باعث بنی۔


پاکستان میں دو طرح کے طبقے موجود ہیں۔ کچھ لوگ فوجی حکومتوں اور جرنیلوں کے دفاع میں دلائل پیش کرتے ہیں تو کچھ لوگ سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ 2018 کے الیکشن کے بعد پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اسٹبلشمنٹ سے نالاں نظر آتی تھیں اور سویلین بالادستی کا نعرہ بلند کئے ہوئے تھیں تو تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کیے ہوئے تھی ۔عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سول ملٹری تعلقات کافی بہتر تھے لیکن تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے یہ تاثر دیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے میں اسٹبلشمنٹ کا بھی کردار ہے یہیں سے عمران خان اور اسٹبلشمنٹ میں دوریاں پیدا ہوئیں اور اس نہج تک پہنچ گئی کہ عمران خان نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار بھی اسٹبلشمنٹ کو قرار دیا۔ پاکستان کو ایک ڈیپ سٹیٹ کہا جاتا ہے جہاں حکومت کے مختلف عہدے براراست یا پس پردہ اسٹبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے۔ دفاعی ، خارجی اور اہم داخلی معاملات کے علاوہ معیشت پر فیصلے بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے مشاورت کے بعد کیے جا رہے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 245 میں افواج پاکستان کا کردار سرحدوں کی حفاظت تک محدود ہے یہاں تک کہ سول حکومت کسی غیر معمولی صورتحال میں خود فوج کی مدد طلب نہ کرے لیکن پاکستان ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے تو دوسری طرف بھارت اور افغانستان کی طرف سے سکیورٹی خدشات بھی ہیں ان حالات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو شامل کئے بغیر فیصلے نہیں کیے جا سکتے ان حالات میں اسٹبلشمنٹ دفاعی معاملات اور چند ممالک سے تعلقات میں اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔


حسن اقبال نمل یورنیورسٹی اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں پاکستان کے سیاسی حالات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔