بدلتی رتوں کے ساتھ سیاسی رہنماوں کے مزاج بھی بدل رہے ہیں عمران خان ایک جارح اپوزیشن لیڈر سے ایک لبرل سٹیٹسمین کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ پی ڈی ایم کے رہنما اقتدار میں ہونے کے باوجود تلخ روپے اپناتے جا رہے ہیں یہ شاید حالات واقعات کا نتیجہ ہے سیاستدان فضا کو سونگ کر اپنے آپ کو مستقبل کے متوقع کردار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں عمران خان جو کل تک ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے تھے آج کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کرنے کو تیار ہیں وہ معیشت پر بات کرنے کو بھی تیار ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ معیشت کو مل جل کر ہی سنبھالا دیا جا سکتا ہے وہ آرمی چیف سے بھی ملاقات کے خواہش مند ہیں وہ بین الاقوامی قوتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب انھیں نظر آ رہا ہے کہ انتخابات کی صورت میں انھیں بڑی کامیابی ملے گی اور اگلا اقتدار ان کا ہے اس لیے وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ جن لوگوں نے زیادتیاں کی ہیں وہ اقتدار میں آکر بدلہ نہیں لیں گے معاف کر دیں گے دوسرا انھیں پتہ ہے کہ معیشت کو سنبھالا دینا اتنا آسان کام نہیں لہذا وہ ایک قسم کی مخالف سیاسی قوتوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ اس ایشو پر ہمیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے تیسرا ان کی خواہش ہے کہ ملک میں دوصوبوں کے علیحدہ اور مرکز وباقی صوبوں کے علحیدہ الیکشن ہونے کا کوئی فائدہ نہیں لہذا ایک ہی دفعہ جنرل الیکشن ہونے چاہئیں چونکہ اس وقت حکومت بھی چاہ رہی ہے کہ ایک ہی دفعہ جنرل الیکشن ہوں عمران خان اس پر بھی بات کرنے کے لیے تیار ہے اور اس پر کسی درمیانی راہ پر سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہیں آرمی چیف سے ملاقات کی جو بات انھوں نے کی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ فوج کا پاکستان کے معاملات میں کتنا اہم کردار ہے اس لیے وہ آرمی چیف سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تاکہ ایک پیج پر آکر ملک کو آگے بڑھایا جائے اور کل کو اپوزیشن اس کے لیے کوئی مسائل پیدا نہ کر سکے عمران خان سمجھتے ہیں اب اقتدار ان سے زیادہ دور نہیں اس لیے وہ آنے والے وقت کے مطابق راہ ہموار کر رہے ہیں لیکن آج کی حکومت آنے والے دور سے خوفزدہ ہے کہ کل کو پتہ نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو گا عمران خان کل تک کہتاتھا کہ اقتدار میں آکر ہم انھیں چھوڑیں گے نہیں اب وہ اپنی باتوں سے پی ڈی ایم کا خوف دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ الیکشن کروانے دیں میں ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتا ہوں یہ باتیں بہت اچھی ہیں لیکن عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں سے نکالنے کے لیے آپ کے پاس کیا ایجنڈا ہے اس وقت تحریک انصاف کو سب سے پہلے منشور دینا چاہیے اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے اپنا ایجنڈا عوام کے سامنے رکھنا چاہیے باقی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے منشور کو پبلک کریں تاکہ عوام کو تقابلی جائزہ لینے کا موقع مل سکے کہ موجودہ مسائل کا کس کے پاس کیا حل ہے بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں نے منشور کو الیکشن کمیشن کی ایک ضرورت سمجھ لیا ہے اس کو ایک کتابچہ سمجھ کر کاغذی کارروائی کے طور پر الیکشن کمیشن میں جمع کروانے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتیں لیکن آج لوگوں کو تشویش ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے کیا ایجنڈا رکھتی ہیں چند دن پہلے ہماری جو عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی اس میں عمران خان نے کہا تھا کہ ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے میں دوسال لگ سکتے ہیں ہمارے پاس ایجنڈا ہے اور اب تو ہمیں تجربہ بھی ہے تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ ہر شعبے کے بارے میں منصوبہ بندی مکمل کر کے خاکہ عوام کے سامنے رکھے تاکہ لوگوں کی مایوسی دور ہو سکے کیونکہ اس وقت کوئی بھی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ مسائل کا حل کیا ہے اور ملک کو کیسے آگے بڑھایاجا سکتاہے بلا شبہ وطن عزیز شدید بحرانوں کی زد میں ہے لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک ایسی لیڈر شپ موجود ہے جو ملک کے طول وعرض میں اپنا اثر ورسوخ رکھتی ہے یہ اللہ کی عنائیت ہے کہ سیاسی طور پر کم از کم ایک قوت ایسی موجود ہے جو ملک کو اکھٹا کرکے آگےلے جا سکتی ہے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اس کی پاپولریٹی سے فائدہ اٹھانا چاہیے ملک میں یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور اس کی اس پاپولریٹی کے ذریعے ملک کے متنازعہ امور طے کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ہر پاپولر لیڈر کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے اسے کٹ ٹو سائز کرتے کرتے ملک کو کٹ ٹو سائز کر لیا ہے اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔
198