144

ابو کی یاد میں

پانج جون کی شام ہر مرتبہ مجھے میرے بچپن میں لے جاتی ہے، اس رات کا ایک ایک لمحہ ایک ایک پل صبح تک میری آنکھوں سے آنسو بن کر بہتا رہتا ہے۔ میرے ابو میری زندگی، میری سوچ اور میری روح کا ایک حصہ تھے جو چھ جون کو مجھے تنہا چھوڑ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ میرے پاس یوں تو سارے رشتے ہیں بہن بھائی بچے گھر روپیہ پیسہ دوست سب کچھ مگر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے ابو مجھے بھری دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں مجھے کبھی اکیلے رہنا اکیلے فیصلہ کرنا انھوں سے سکھایا ہی نہیں تھا بچپن میں کوئی لڑکی لڑائی کرتی کوئی ٹافی چھین لیتی تو سب سے پہلے ابو کو بتاتی گھر میں بھائی امی پھپھو کچھ کہتے تو ابو کو ہر ایک بات ان سے شیر کرنا میری عادت بن گئی میری کمزوری بن گئی یا میری ہمت بنتی گئی کچھ پتا نہیں چلا بس اتنا پتا ہوتا تھا کہ ہر بات ہر مشکل کا حل ابو کے پاس ہے۔ میرے ابو ایک چھوٹے شہر کے بہت بڑے آدمی تھے وہ ہمیشہ کہتے تھے کبھی دوستوں کے ساتھ غداری نہ کرو دنیا کی نظر سے نہیں اپنی نظر سے دیکھا کرو کبھی جھوٹ مت بولا کرو جھوٹ بزدل انسان کی پہلی نشانی ہے بہادر لوگ سچ بو ل سکتے ہیں۔
بچپن میں ایک گلاس مجھ سے ٹوٹ گیا امی نے ڈانٹا تو میں نے کہا میں نے تو نہیں توڑا ابو دیکھ رہے تھے مجھے پاس بلایا کمرے میں لے گئے مجھے کہنے لگے آپ میرا پیارا بیٹا ہو نا مجھے سچ سچ بتاو گلاس کیسے ٹوٹا بات گلاس کی نہیں ہے میں بارہ لادونگا روز ایک توڑنا مگر مجھے بتاو تو میں رو پڑی انکے گلے لگ گئئ تو مجھے چپ کرا کے کہنے لگے میرا بہادر بیٹا ہے نا آپ جاو اور سب کے سامنے جاکر کہو گلاس میں نے توڑا ہے اور میرے ابو کے پیسوں سے آیا تھا میں باہر گئی سب گھر والے بیٹھے تھے تو ایسا ہی کہ دیا سب ہنس پڑے مذاق بنایا کہ جھوٹ بولا کیوں تھا۔
اس کے بعد میرا دل جیسے ہلکا ہوا ساتھ مجھے ہمت بھی ملتی گئی ہر سچ کو اپنی بہادری سمجھنے لگ گئئ وہ ہمیں کھلونے کپڑے آئس کریم دینے سے زیادہ وقت دینے کے قائل تھے ایک کورے کاغذ کی طرح سب کچھ ہم پر لکھنا چاہتے تھے ہم لوگ ویسے بالکل بھی نہیں بن پائے جیسا کہ وہ چاہتے تھے جتنی انکی محنت تھی مگر انکی ایک ایک بات کے پیچھے ایک مقصد ہوتا تھا جو ہمیں اب پتا چلتا ہے جب وقت گزر چکا ہے میرے ابو کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے شہر میں ہوتے تو ہم بچوں کے ساتھ ملکر اور گاوں جاتے تو سب کو اکٹھا کر کے روز اہنے گھر دعوت دیتے خواہ دال سبزی گرین ٹی بھی ہوتی کبھی ایک کپ ٹرے میں نہیں جاتا ہمیشہ چھ سات کپ ہی جاتے ہوتے مجھے خود زبردستی باہر بھیج دیا میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر وہ بضد تھے اور یوں ہم پچھڑ گئے بس فون پر ہی رابطہ ہوتا تھا مری گئے ہوئے تھے مجھے بتایا کہ بارش ہو رہی ہے راستے بند ہو جائینگے میں ایک دو دن میں گھر چلا جاونگا میں نے کہا بارشیں رک جائیں تو چلے جائیے گا مگر وہ جو فیصلہ کر لیتے تھے کر کے بتاتے تھے پھر اسکو تبدیل کوئی نہیں کر سکتا تھا میرے منع کرنے کے باوجود چلے گئے راستے میں ہارٹ اٹیک ہوا اور چھ جون کی صبح تین بجے میری بہن کی کال آئی میں نے فون اٹھایا تو کہتی باجی ابو فوت ہوگئے ہیں وہ لمحہ وہ ٹیم چھ جون کی صبح آج تک مجھے قیامت لگتی ہے باپ بیٹی کیلئے ایک چھت ہوتی ہے خواہ لاکھ بنگلے ہوں باپ جیسی چھت کوئی نہیں ہو سکتی میرے ابو مجھے شدت سے یاد آتے ہیں۔