150

عدلیہ بھی سیاست کی نذر

آج کے حالات پر رونا آتا ہے ہر محب وطن ذی شعور شہری حالات کی سنگینی پر تشویش میں مبتلا ہے اقتدار کی چھینا جھپٹی ہمیں کہاں لے آئی ہے اور نہ جانے کہاں لے جائے گی سیاست کے بدمست ہاتھی سب کچھ روندے چلے جا رہے ہیں نگوڑی سیاست نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے سپریم کورٹ تنازعات کا شکار ہے ہمارے ہاں ہر چیز کو متنازعہ بنانے کی روایت چل پڑی ہے چیف جسٹس آف پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے توہین عدالت کے ڈر کی وجہ سے اور عدلیہ کی تکریم کے باعث لکھتے وقت بہت سے الفاظ کی قربانی دینی پڑ رہی ہے ورنہ جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے اندھوں کو بھی پتہ چل رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے کس کا کیا کردار ہے اور اس سارے گند سے کس کو کیا فائدہ ملے گا جرائم کی دنیا میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ جرم کا بینفشری کون ہے کیونکہ بعض اوقات جرم کسی اور کے ہاتھوں سرزد ہو رہا ہوتا ہے اس کا فائدہ کوئی اور اٹھا رہا ہوتا سپریم کورٹ کے پیدا شدہ حالات اور ججز کی تقسیم کا بینفشری کون ہے اس سے سارا کچھ واضح ہو جاتا ہے سپریم کورٹ پر ایک بار پھر شب خون مارا جا رہا ہے لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے 1997، 98 والے حالات پیدا ہو چکے ہیں اگلے دو تین دن بہت اہم ہیں لیکن کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے آج پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن سربراہی ن لیگ کے پاس ہے اس وقت بھی سپریم کورٹ میں ایسی ہی تقسیم پیدا ہو گئی تھی جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا تھا اور تقسیم کرنے والوں کے ہاتھ میں بھی کچھ نہ آیا تھا آج بھی حالات اسی طرح کے ہیں یہ حالات منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے گئے ہیں نہ جانے آج پارلیمنٹ میں عدلیہ کو کیوں رگیدا جا رہا ہے آج پارلیمنٹ کو اعلی عدالتوں میں پینڈنگ کیس بھی یاد آرہے ہیں اور سپریم کورٹ کے آڈٹ کی بھی بات کی جا رہی ہے ججز کی آڈیو ویڈیو بھی منظر عام پر لائی جا رہی ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہو گا یہ سارا کھیل خاص حلقوں میں کھیلا جا رہا ہے لیکن اس کے ذریعے ایک عوامی تاثر پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے عدالتوں کو ماضی کے کیسوں کی سزا دی جا رہی ہے صحافی معاشرے کا نباض ہوتا ہے اس وقت عوام کی جانب سے جو فیڈ بیک مل رہا ہے اس کے مطابق عمومی طور پر عوام میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ یہ سارا کچھ انتخابات کے التواء کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور دوسرا عدالتی اصلاحات کا بل جسے پارلیمنٹ منظور کر چکی ہے اس کے لاگو ہونے تک معاملات کو التواء میں رکھنے کے لیے سارا کچھ کیا ہو رہا ہے اس بارے میں بل اب ایوان صدر میں صدر مملکت کے پاس منظوری کے لیے پڑا ہے صدرمملکت کے پاس تین آپشن ہیں ایک وہ اس پر دستخط کر دیں اور یہ قانون فوری نافذ العمل ہو جائے دوسرا وہ 14 دن تک اپنے پاس رکھ کر نظرثانی کے لیے واپس بھیج دیں اس پر پارلیمنٹ اگر دوبارہ اسے پاس کرکے صدر کو بجھوا دیتی ہے تو صدر زیادہ سے زیادہ 10 دن تک اسے اپنے پاس رکھ سکتے پھر وہ دستخط کریں یا نہ کریں وہ قانون بن جائے گا لیکن اس معاملہ میں صدر کے پاس ایک تیسرا آپشن بھی موجود ہے صدرمملکت اس کا ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ کو بجھوا سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کی اس پر رائے حاصل کر سکتے ہیں چونکہ یہ عدلیہ کے اختیارات کا معاملہ ہے اس لیے اسے سپریم کورٹ بجھوایا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے کے یہ معاملہ سپریم کورٹ کی موجودہ قیادت کے سامنے آئے اس سے پہلے کچھ کر گزرنے کی کوشش تیز ہو چکی ہے اور سپریم کورٹ میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت بکھر کر رہ گئی ہے کچھ لوگوں نے خواہشات کی تکمیل کے لیے سپریم کورٹ میں، سن،لگا لی ہے اللہ ہی خیر کرے