430

جسٹس قاضی فائز عیسی ریفرنس، کھیل ابھی باقی ہے

جسٹس قاضی فائز عیسی کے حمایتی 3 قسم کے لوگ تھے ایک وہی جو قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں اور انصاف پسند لوگ ہے یہ لوگ غیر جانبدار ہے۔ دوسرے وہی جو حکومت کیخلاف ہے یعنی  عمران کیخلاف دائمی بغض کا شکار ہے  چونکہ قاضی صاحب نے اپنی درخواستوں میں براہ راست حکومت پر وزیر اعظم صدر اور دیگر وزرا پر الزامات لگایا  تو لگایا سیدھا حکومت کیخلاف کیس بن گیااس قسم میں حکومت سے باہر تمام جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں اور کارکنوں کی ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو سمجھتے ہے اپنی ملک کے آرمی کیخلاف بولنے لکھنے پر خود کو انقلابی سمجھتے ہے اور ملک کے ہر مسائل کا جڑ اور زمہ دار آرمی کو سمجھتے چونکہ جج نے اسٹبلشمنت پے بھی الزامات لگائی اس لئے وہی لوگ سمجھ گئے یہ تو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھی کیس ہے تو حمایتی بن گئی۔ وکلا کی نمائندہ تنظیم بار بھی جج صاحب کی حمایتی تھی اور انکا تعلق بھی سیاسی بنیاد پے اور الیکشن بھی سیاسی حمایت پے ہوتی ہے جب سے بار کا نام سنا آج تک کسی غریب یا عام آدمی کے کیس میں فریق یا حق میں بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ کرپٹ اور امرا کے پیچھے کھڑی رہی آخری 20 پریس ریلیز نکال کے دیکھ لیجے تو واضح ہوجائے گا.

قاضی صاحب کے جو مخالف تھے وہ بھی دو قسم کے لوگ ایک پی ٹی آئی والے دوسرے وہی جو غیر جانبدار ہے جو سمجھتے ہے جج ہو یا کوئی بھی وہ قانون سے بالاتر نہیں احستاب ہونا چاہے۔ اب مقدمے کی طرف آتے ہیں حکومت نے ایک شکایت پر جانچ پڑتال کی اور ریفرنس دائر کیا جسے جج صاحب نے پیش ہونے اور حساب دینے کی بجائے ریفرنس کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ساتھ میں وہی بار کونسلز بھی شامل ہوگئی جس سے کیس سپریم کورٹ میں لگ گیا پہلے ایک بنچ بنی جس میں دس ججز کا قاضی صاحب کا اعتراض آیا تو وہ بنچ سے دستبردار ہوئے پھر 10 رکنی فل کورٹ بنی جس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے کی۔ وفاق کی طرف پہلے سابق اٹارنی جنرل انور منصور صاحب پیش ہوئے بعد میں سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم صاحب جبکہ قاضی صاحب کی طرف سے سینئر وکیل منیر اے ملک صاحب پیش ہوئے۔ 41 سماعتیں ہوئیں سب سے حیران کن اور غیر متوقع دن وہ تھا جب قاضی صاحب خود عدالت آئیں اور دلائل دینے شروع کئے۔ یہاں دلچسپ بات یہ کہ قاضی صاحب کے پیش ہونے سے پہلے دن فل کورٹ نے حکومت کو ایف بی آر کے پاس جانے کا آپشن دیا تھا جس پر وفاق کے وکیل نے وزیر اعظم سے مشورہ لیکر اگلے روز آگاہ کرنے کا استدعا کی جسے منظور کیا گیا.

اگلے دن جب وفاق کے وکیل فل کورٹ کی پیشکش کو قبول کرتے اور ایف بی آر جانے پر رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں اسی دوران قاضی صاحب خود پہنچ جاتے ہیں اور فل کورٹ کے روبرو ایف بی آر جانے کی مخالف کے ساتھ بیوی کی بیان لینے کی استدعا کرتے ہیں۔ جسے اگلے روز منظور کرکے بیان لیا جاتا ہے 59 منٹ کی بیان میں بیوی زبانی طور پے جائیدادوں ہی تفصیل بتاتی اور اور ویڈیو پے کچھ دستاویزات بھی دکھاتی ہے جس ججز اطمینان کا بھی اظہار کرتے ہیں لیکن  فل کورٹ دستاویزات کو متعلقہ فورم پے لیجانے کا ہدایت بھی کرتی ہیں .

جس کے بعد اگلے روز وفاق کے وکیل کے دالائل مکمل ہونے کے بعد قاضی صاحب کے وکلا بھی جواب لجواب مکمل کر لیتے ہے جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرکے 4 بجے سنایا جاتا ہے۔ اب فیصلہ میں ریفرنس کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور ساتھ میں قاضی صاحب کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ایف بی آر میں جائیداد کے حوالے سے تمام دستاویزات پیش کریں اگر وہاں سے کلیرنس نہ ہوئی تو ریفرنس بحال ہوگا اور سپریم کونسل سوموٹو کے تحت کاروائی کرے گی۔ دوران سماعت یہ بات طے ہوئی تھی کہ ریفرنس دائر کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں تھے اور جج صاحب کے لامتناہی الزامات بھی تھے لیکن ریفرنس کالعدم ہونے پر بھی قاضی صاحب کلیر نہیں ہوئے کیونکہ فیصلے میں انہیں بھی پابند بنایا گیا کہ وہ ایف بی آر پیش ہو اور جائیدادوں کے حوالے سے کلیرنس لیں.

رہی بات جو جاسوسی اور بدنیتی کے حوالے جو الزمات تھے اسکے علاوہ ایسٹ ریکوری یونٹ کیخلاف جو الزامات تھے مختصر فیصلے میں اس پر ایک لفظ بھی نہیں اب تفصیلی فیصلے میں اے آر یو کی دوبارہ تشکیل پے بات ہوگی شاید. لیکن قاضی صاحب کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کیونکہ 9 ماہ تک وہ الزامات لگاتا رہا اور منی ٹریل نہیں اب منی ٹریل ایف بی آر کو دینا ہوگا اور حکومت کا بھی یہی موقف تھا .فروغ نسیم نے کمزور ریفرنس میں جان ضرور ڈالی لیکن وقتی کامیابی ریفرنس کالعدم ہونے پر نہیں ملی تاہم ایف بی آر کے کاروائی کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا .فل کورٹ کے حکم ہے مطابق ایف بی آر 7 دن میں قاضی صاحب کے فیملی کو 3 جائیدادوں کے حوالے نوٹس کرے گی اور 60 دن کے اندر کاروائی مکمل کرکے اپنی رپوٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو جمع کرائی گی اور یہ رپوٹ حتمی ہوگی کیونکہ اب قاضی صاحب اپیل میں گیا تو ریفرنس کالعدم ہونے ہر سوال اٹھے گا نہیں تو ایف بی آر کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا .جبکہ حکومت کو ریفرنس کی وجہ سے جو مشکلات اور خطرات لاحق تھیں وہ ٹل گئی اور 2 ماہ کا وقت بھی مل گیا اس دوران حکومت مزید ثبوت فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوگی اسلئے قاضی صاحب کی وقتی جشن کی معیاد کا فیصلہ 2 ماہ بعد ایف بی آر رپوٹ کرے گی.  کھیل ابھی باقی ہیں۔ ۔ ۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں