215

کچے اور پکے کے ڈاکو

ویسے آپ اسے ڈاکو راج کہہ سکتے ہیں جہاں انصاف نہ ہو جہاں قانون طاقتور کے تابع ہو جہاں اشیاء کی من مانی قیمتیں وصول کی جا رہی ہوں جہاں ہر چیز میں ملاوٹ ہو جہاں جائز کاموں کے لیے بھی رشوت دینی پڑے جہاں حق دار کو اس کا حق نہ ملے جہاں لاقانونیت ہو جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہو جہاں طاقتور کے لیے قانون اصول ضابطے تبدیل ہو جائیں جہاں جان بچانے والی ادویات میں بھی ملاوٹ ہو اور بلیک میں فروخت ہوتی ہوں تو اسے قانون کی حکمرانی نہیں کہا جا سکتا جہاں پل پل پر میرٹ کا قتل عام ہو رہا ہو جس معاشرے میں معاشی ناہمواری کا یہ عالم ہو کہ وہاں کچھ لوگ تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں وہ کوڑے کے ڈھیر سےگلے سڑے پھل چھلکے اور ضائع شدہ کھانا کھا کر پیٹ بھرتے ہوں اور کچھ لوگوں کے کتوں بلیوں اور جانوروں کی خوراک بھی باہر سے آ رہی ہو تو یہ غلیظ قسم کی ناانصافی ڈاکو راج نہیں تو اور کیا ہے ہمارے معاشرے میں کئی قسم کے ڈاکو ہیں لیکن آپ ان کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک کچے کے ڈاکو ہیں جن کے خلاف آج کل آپریشن ہو رہا ہے اور دوسری قسم پکے کے ڈاکووں کی ہے جن کے بارے میں لکھتے ہوئے قلم بھی لغزش کھا جاتا ہے کچے کا علاقہ پنجاب بلوچستان اور سندھ کے ایسے سنگم پر واقع ہے جہاں تینوں صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں یہ دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ ہے اور اسی مناسبت سے اس علاقے میں وارداتیں کرنے والے ڈاکووں کو کچے کے ڈاکو کہا جاتا ہے ماضی میں بھی ان علاقوں میں متعدد آپریشن ہو چکے ہیں وقتی طور پر آپریشن کرکے ڈاکووں کے ٹھکانے تباہ کرکے کریڈٹ لے لیا جاتا ہے کہ کچے کے ڈاکووں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن یہ سارا کچھ آئی واش کے علاوہ کچھ نہیں اگر وانا وزیرستان کے علاقہ جسے علاقہ غیر کہا جاتا تھا جہاں ریاست پاکستان کی رٹ نہیں تھی جہاں قبائلی نظام تھا اگر وہاں آپریشن کرکے انھیں سیٹلڈ ایریا بنایا جا سکتا ہے تو کچے کا علاقہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے کچے کے ڈاکووں کے پشت پناہ پکے کے ڈاکو اور خود پولیس حکام ان کے مکمل خاتمہ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو کچے کے ڈاکو وہ ڈاکو ہیں جو اپنی نگاہ میں بھی ڈاکو ہیں وہ اپنے گھر والوں اور معاشرے کی نگاہ میں بھی ڈاکو ہیں اور خود کو ڈاکو کہنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں اور بغیر کسی لگی لپٹی کے کھل کر کام کرتے ہیں انھوں نے کچے کے علاقے کو اپنی راجدھانی بنا رکھا ان کے پاس جدید ترین آئی ٹی ٹیکنالوجی کے آلات جدید ترین اسلحہ موجود ہے اگر ان پر کوئی افتادہ آن پڑے تو یہ باآسانی دوسرے صوبوں کے کچے کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں کے ڈاکووں کے مہمان بن جاتے ہیں یہ ڈاکو پہلے تو اپنے علاقوں میں ہی وارداتیں کرتے تھے لیکن اب انھوں نے موبائل فون انٹرنیٹ اور دوسری ایپ کے ذریعے لوگوں کو عورتوں کی محبت کے جال میں پھنسا کر بڑے منافع کا لالچ دے کر سستی گاڑی اور مشینری دلوانے کا لالچ دے کر ہنی ٹریپ کرکے بڑے بڑے شہروں کے لوگوں کو بلا کر انھیں اغواء کرکے تاوان وصول کرنے کا کاروبار شروع کر دیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی پشت پر بڑے بڑے پولیس افسر بااثر شخصیات اور سیاست دان ہیں جو ان کے مکمل خاتمہ میں رکاوٹ ہیں کچے کے ڈاکووں اور پولیس کا آپس میں گھٹ جوڑ ہے انتخابات میں بااثر افراد ان ہی کچے کے ڈاکووں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں پھر یہ ڈاکو راج قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ جب بھی کچے کے ڈاکووں کے خلاف آپریشن ہوتا ہے اس کا پہلے اچھے طرح سے ڈھول پیٹا جاتا ہے جس کا مطلب ہے اپنا بندوبست کر لو ہم آرہے ہیں جو انٹیلی جنس آپریشن ہوتے ہیں ان میں چھپکے سے کارروائی کی جاتی ہے اور ٹھکانوں کو تباہ کر دیا جاتا ہے اور پھر بھر پور آپریشن کرکے وہاں کا انتظامی سسٹم مضبوط کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو خود رو پودے کی تراش خراش کرکے اسے دوبارہ خود رو بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کچے کے ڈاکو خود اپنے ہاتھوں سے وارداتیں کرتے ہیں لیکن پکے کے ڈاکو بڑے پکے ہوتے ہیں وہ ایسا پکا کام ڈالتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے واردات کرنے کے باوجود کہتے ہیں کون کہتا ہے ہم نے واردات کی ہے کوئی ثبوت ہے تو سامنے لے کر آو کچے کے ڈاکو ایک بس لوٹتے ہیں پکے کے ڈاکو پوری قوم کو لوٹ لیتے ہیں اور خبر بھی نہیں ہونے دیتے یہ اپنے عہدوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں پکے کے ڈاکو اپنے آپ کو ڈاکو نہیں سمجھتے یہ عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالتے ہیں ان کی ڈکیتیاں بڑی سلجھی ہوتی ہیں جس کی رکھوالی پر ہوتے ہیں وہیں کرپشن کا ڈاکہ ڈال کر خود کو خدمت گزار ثابت کرتے ہیں یہ عوام کی نگاہ میں بھی ڈاکو نہیں کہلاتے یہ اسلحہ اٹھائے بغیر وارداتیں کرتے ہیں ان کی وارداتیں تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو جیسی ہوتی ہیں ہماری پنجاب پولیس جو اس وقت کچے کے علاقے میں آپریشن کر رہی ہے جس کی سربراہی خود آئی جی کر رہے ہیں اس کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پولیس نے جو ظلم زمان پارک میں نہتے شہریوں پر کیا ہے جس کی وجہ سے پولیس کی عوام میں ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس سے نظریں ہٹانے کے لیے عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کچے کے ڈاکووں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور قوم کو باور کروایا جا رہا ہے کہ ہم تو ایک جنگ لڑ رہے ہیں مزے کی بات ہے کہ ان ڈاکووں کے خلاف جدید ہھتیار اور آلات استعمال نہیں کیے گئے جو شہروں میں نہتے شہریوں پر تیزاب والا پانی اور مہلک آنسو گیس استعمال کرکے لوگوں کو مفلوج کیا گیا یہاں چپکے سے شہریوں پر داوا بول دیا گیا کچے کے ڈاکووں کو اطلاع کرکے آپریشن کیا جا رہا ہے تاکہ وہ پکے کے ڈاکووں کے پاس پناہ لینے میں کامیاب ہو جائیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہاں کے آپریشن کے اخراجات کچے کے آپریشن میں ڈال کر حساب برابر کیا جا رہا ہے یہاں ایک بات لکھ کر رکھ لیں کچے کے ڈاکووں پر جتنے مرضی آپریشن کر لیں عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا عام آدمی کو ریلیف پکے کے ڈاکووں کے خلاف آپریشن سے ملے گا