115

کیا بلاول آ رہا ہے

یہ 2013 کا ایک دن تھا اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے ہمیں ایوان صدر میں مدعو کر رکھا تھا یہ ان کا ایوان صدر میں آخری دن تھا میں نے ان سے پوچھا کہ آئیندہ انتخابات میں آپ صدر مملکت کے امیدوار ہوں گے یا وزیر اعظم کے ان کا جواب تھا کہ میں اب نہ صدر کا امیدوار ہوں نہ وزیراعظم کا انھوں نے اس وقت بتایا کہ مجھے پتہ ہے اگلا دور ہمارا نہیں اور شاید اس سے اگلا دور بھی ہمارا نہ ہو ہم نے تو 2023 کے الیکشن کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے اور بلاول ہمارے امیدوار ہوں گے ویسے بھی میثاق جمہوریت کے معاہدے کے مطابق ایک باری مسلم لیگ ن کی اور دوسری باری پیپلزپارٹی کی ہو گی 2018 میں پیپلزپارٹی کی باری تھی لیکن باری عمران خان لے گیا اب 2023 میں مسلم لیگ ن کی بجائے پیپلزپارٹی کو اہم تصور کیا جا رہا ہے حالانکہ موجودہ اسمبلیوں میں مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کی تعداد زیادہ ہے اور اگلے الیکشن میں بھی تحریک انصاف بمقابلہ ن لیگ کو سمجھا جا رہا تھا بلکہ بظاہر تحریک انصاف اس وقت ملک کی پاپولر جماعت کے طور پر نظر آ رہی ہے لیکن سیاسی فورسز پیپلزپارٹی کو اہم قرار دے رہی ہیں اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے بلکہ قیادتوں کے درمیان اس پر ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے کہ اگلا الیکشن پی ڈی ایم کی ساری سیاسی جماعتیں مل کر لڑیں گی ابھی اس کا اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن اصولی طور پر اس پر پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں کا اتفاق ہو چکا ہے اور یہ ساری جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اسی صورت میں تحریک انصاف کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کیوں اہم ہوتی جا رہی ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو کیوں تشویش لاحق ہو رہی ہے وہ کیوں بار بار کہہ رہے ہیں کہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے بلوچستان کے اہم سرکردہ سیاسی رہنما کیوں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں کیوں ایم کیو ایم کو کراچی میں اکٹھا کیا جا رہا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے یا نہیں لیکن یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ اہم طاقتیں تحریک انصاف اور ن لیگ سے تا حال ناراض ہیں جبکہ آصف علی زرداری کام ڈال چکے ہیں وہ کافی عرصہ سے اپنے آپ کو قابل قبول بنا چکے ہیں بلوچستان کے سیاستدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بغیر اشاروں کے چائے بھی نہیں پیتے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ انھیں اشارے سمجھ آ رہے ہوں گے اور پھر سب کے سامنے ہے کہ راتوں رات باپ پارٹی کیسے بنی تھی جب مسلم لیگ ن کے ثناءاللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو میں نے دو دن قبل خبر دی تھی کہ ثناءاللہ زہری کے ساتھ صرف 6 ارکان رہ گئے ہیں اور وہ استعفی دے دیں گے اور واقعی ان کے ساتھ 6 ارکان رہ گئے تھے وہ خاندانی بندہ تھا اس نے اسمبلی میں اپنے خلاف تقریروں سے بچنے کے لیے مستعفی ہو گیا

کچھ عرصہ سے وہاں حکومتیں بس ایسے ہی بن رہی ہیں اب باپ پارٹی پیپلزپارٹی میں ضم ہو رہی ہے یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بڑے سیاسی خاندان اور بعض الیکٹ ایبل بھی پیپلزپارٹی کی چھتری پر بیٹھنے کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہو رہی ہے ورنہ یہاں تو ہوا بنتی ہے اور الیکٹ ایبلز اڑ جاتے ہیں ابھی تو پارٹی شروع نہیں ہوئی جب الیکشن کا بغل بجے کا پھر صیح پتہ چلے گا کون کس طرف جاتا ہے لیکن اصل فیصلہ تو پنجاب نے کرنا ہے اگر پیپلزپارٹی پنجاب سے 25 سے 40 تک قومی اسمبلی کی نشستیں لے جاتی ہے تو پھر باقی جماعتوں کو ملا کر کچھ دال دلیا ہو سکتا ہے پنجاب کی اصل وارث ہونے کی دعویدار مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہے اس کی پنجاب میں پرفارمنس کیسی ہو گی آج بھی پنجاب میں اصل مقابلہ تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہی سمجھا جا رہا ہے کراچی میں اگر ایم کیو ایم کے سارے دھڑے اکھٹے ہو جاتے ہیں تو پھر تحریک انصاف کو سندھ میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پنجاب میں ان کے لیے فضا سازگار ہے الیکشن تک حالات کیسے ہوتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کا سٹیرنگ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہو گا پی ڈی ایم کی جماعتیں پیپلزپارٹی کے پیچھے کھڑی ہوں گی