Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
278

لندن سے کیمبرج

مجھے وہ شہر ہمیشہ پرکشش اور پروقار لگتے ہیں جہاں اعلی معیار کے تعلیمی ادارے قائم ہوں اور جہاں کا ماحول علم کی خوشبو سے معطر اور علم کے حصول کی جستجو سے مزین ہو۔ لندن سے تقریبا ایک گھنٹے کی دوری پر کیمبرج ایک ایسا ہی شہر ہے جس کا علمی ماحول مجھ ایسے طالب علم کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک شہر ہے لیکن درحقیقت پورا شہر ایک یونیورسٹی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی دنیا کے چند ایک بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک شاندار درسگاہ ہے۔ ویسے تو میں پہلے بھی کئی بار کیمبرج آتا جاتا رہا ہوں لیکن گزشتہ ہفتے کیمبرج جانے کا مقصد اس شہر اور اس کی بے مثال یونیورسٹی کا مشاہدہ کرنا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشتمل کیمبرج ایک تاریخی شہرہے جس کے درمیان سے دریائے کیم گزرتا ہے اور جو برطانیہ کا سائیکلنگ کیپیٹل کہلاتا ہے یعنی کیمبرج کے 55 فیصد لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار سائیکل سواری ضرور کرتے ہیں۔ اس شہر میں کنگز کالج کی تاریخی عمارت، گریٹ سینٹ میری چرچ، فٹزولیم میوزیم، مارکیٹ سکوئر، کیمبرج آرٹس تھیٹر، بوٹینیکل گارڈن، راونڈ چرچ اور کوئنز کالج کے میتھ میٹیکل برج کے علاوہ سیاحوں کے لئے اور بہت سے دلچسپ مقامات ایسے ہیں جن سے تاریخ کا کوئی نہ کوئی حوالہ وابستہ ہے۔ یہ موسم بہار کا ایک روشن دن تھا جب ہم کیمبرج پہنچے، یونیورسٹی کی طرف جانے والا ہر راستہ ہماری طرح کے سیاحوں سے اٹا ہوا تھا۔ لندن سے روانگی پر میں نے اپنے دیرینہ دوست یوسف بیگ صاحب کو اطلاع کر دی تھی جو کہ کیمبرج یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ بیگ صاحب ایک شاندار اور نفیس انسان ہیں انہوں نے ہمیں کیمبرج یونیورسٹی کے مختلف شعبوں، فکلیٹیز اور کالجز کا اس طرح دورہ کروایا جیسے ایک باخبر ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کی معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ ہم جب شہر کا چکر لگا کر لوسی کیونڈش کالج کے کار پارک میں پہنچے تو یوسف بیگ صاحب کچھ ہی دیر بعد ہمیں لینے کے لئے وہاں آ گئے۔ ہمارا ارادہ پیدل گھومنے کا تھا چنانچہ گاڑی کو ایک پارک کے قریب کھڑی کر کے دریائے کیم کی طرف چل دیئے۔ یوسف بیگ راستے میں آنے والی ہر عمارت اور کالج کے بارے میں معلومات سے آگاہ کرنے لگے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج دراصل ایک پبلک کالجیٹ ریسرچ یونیورسٹی ہے اس تعلیمی ادارے کے قیام کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب آکسفورڈ یونیورسٹی سے سائنس کے کچھ اساتذہ کو سبک دوش کیا گیا تو وہ کیمبرج آ گئے جہاں انہوں نے لوگوں کو انفرادی طور پر پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ طالبعلموں کی تعداد بڑھنے لگی تو مختلف مضامین کی تدریس کے لئے سکول اور کالج بن گئے۔ ابتدا میں ان کالجز میں صرف اُن طالب علموں کو داخلہ دیا جاتا تھا جو غیر شادی ہوتے تھے اور اپنا پورا دھیان پڑھائی لکھائی پر مرکوز رکھتے تھے۔ اِن طلبا کو فارغ التحصیل ہونے پر بیچلر ڈگری دی جاتی تھی۔ گریجوایٹ ہونے والے ان طالب علموں میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے تھے جو مزید تعلیم کے حصول کے لئے ان کالجز میں ہی اپنے اساتذہ کی تدریسی معاملات میں معاونت کرتے اور ایک خاص عرصے کے بعد ایسے طلبا کو ماسٹرز ڈگری دی جاتی تھی۔ اپنے قیام کے 22 برس بعدیعنی 1231 میں برطانوی کنگ ہنری سوئم نے کیمبرج یونیورسٹی کو رائل چارٹر سے سرفراز کیا اور اب یہ ادارہ 31 کالجز، 150 اکیڈمک ڈیپارٹمنٹس اور فکلیٹیز کے علاوہ 6 سکولز پر مشتمل ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں 8کلچرل اور سائنٹیفک میوزیمز ہیں اور 116 لائبریریز ہیں جہاں کم و بیش 16 ملین کتابوں کا خذانہ موجود ہے۔ صرف کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں 9 ملین کتابیں ہیں جن کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اکیڈمک لائبریری میں ہوتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے 121 افراد ایسے ہیں جن کو مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی پر نوبل پرائز مل چکا ہے اور اس ادارے کے 194 لوگ مختلف کھیلوں میں اولمپیکس میڈل حاصل کر چکے ہیں۔ دنیا کی بہت سی نامور شخصیات کو کیمبرج یونیورسٹی سے حصول تعلیم کا اعزاز حاصل رہا جن میں لارڈ بائرن، اولیورکرامویل، چارلس ڈارون، سٹیفن ہاکنگ، آئزک نیوٹن، برٹرینڈرسل، فرانسس بیکن، جان ملٹن اور جواہر لعل نہرو کے علاوہ درجنوں دیگر افرادکے نام شامل ہیں۔ ان شخصیات میں اولیور کرامویل برطانوی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار تھا جسے ایک سیاستدان اور ملٹری کمانڈر (ڈکٹیٹر) کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 25 اپریل 1599 کو پیدا ہونے والا اولیور کرامویل کیمبرج کے سڈنی سسیکس کالج کا تعلیم یافتہ تھا وہ کیمبرج سے دوبار برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اگست 1642 میں جب پہلی انگلش سول وار کا آغاز ہوا تو اولیورکرامویل نے پارلیمنٹرین آرمی میں شمولیت اختیار کر لی اور1645 میں نیو ماڈل آرمی کا کمانڈر مقرر ہوا اس نے کئی جنگیں لڑیں اور ایک جنگجو کے طور پر مقبول ہوا۔ 1653 میں اس نے لارڈ پروٹیکٹرآف کامن ویلتھ کا عہدہ حاصل کر لیااور 3 ستمبر 1658کو اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہا اور اسے ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کیا گیا مگر کنگ چارلس دوم کے اقتدار سنبھالنے پر اس کی لاش کو پھانسی دی گئی اور اس کا سر ٹاور آف لندن کے باہر 30 برس تک لٹکا رہاجسے بعد ازاں سڈنی سسیکس کالج کیمبرج کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ہر سال تقریباً ساڑھے چوبیس ہزارطالب علم حصول تعلیم کے لئے داخلہ لیتے ہیں جن میں اندرگریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ دونوں طرح کے طلبا شامل ہیں۔ یونیورسٹی اور اس سے وابستہ کالجز میں اساتذہ اور انتظامی عملے کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھک ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سائنس کے مختلف شعبوں میں اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اب جدید سائنس کے نئے شعبوں کے لئے ویسٹ کیمبرج میں نئی اور شاندار عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں جہاں طلبا کی ہر طرح کی تعلیمی اور رہائشی سہولتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ یوسف بیگ صاحب جب ہمیں کیمبرج یونیورسٹی کے قدیم اور تاریخی کالجز کے کشادہ بیک گارڈنز دکھاتے ہوئے ویسٹ کیمبرج کے جدید اور زیر تعمیر حصے کی طرف لے جا رہے تھے تو مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغداد الجدید کیمپس یاد آنے لگا جو اب ریگستان سے نخلستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں 1991 میں اس یونیورسٹی کے شعبہ صحافت (ابلاغیات) کا طالب علم تھا تو ہماری یہ جامعہ ریلوے روڈ اور اولڈ کیمپس تک محدود تھی، بغدادالجدید کیمپس زیر تعمیر تھا اور یہ کیمپس شہر سے باہر تھا مگر اب بہاول پور شہر کی وسعت نے اس کیمپس کو بھی اپنی حدود میں سمیٹ لیا ہے اور یہاں 15 مختلف فکلیٹیز میں ہر سال ہزاروں طلبا و طالبات حصول تعلیم کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغدادالجدید کیمپس واقعی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے جو ہرے بھرے درختوں سبزہ زاروں اوررنگ برنگے پھولوں سے مزین ہے۔ اس تعلیمی ادارے کی وسعت اور علمی معیار کی بہتری سے نہ صرف بہاولپور ڈویژن میں اعلی تعلیم کی ضرورت پوری ہو رہی ہے بلکہ اس شہر کے علمی وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب اس ادارے کے تعلیمی معیار اور علمی وقار میں اضافے کے لئے خلوص نیت سے سرگرم عمل ہیں اس پر وہ تحسین اور ستائش کے حق دار ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی سے بات اسلامیہ یونیورسٹی تک جا پہنچی لیکن کیا کیا جائے کہ میں جب کبھی کسی اعلی تعلیمی ادارے میں جاتا ہوں تو مجھے اپنی مادر علمی ضرور یاد آتی ہے……کیمبرج شہر میں کیمبرج یونیورسٹی کے علاوہ ایک اور یونیورسٹی جو اینگلیارکسن یونیورسٹی کہلاتی ہے 1858 میں اسے ایک سکول کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو اُس وقت سکول آف آرٹ کہلاتا تھا،1992 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس جامعہ میں ہر سال 35ہزار سے زیادہ طالب علم داخلہ لیتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کی طرح اینگلیارکسن یونیورسٹی میں بھی دنیا بھر سے طلبا کی ایک بڑی تعداد حصول تعلیم کے لئے یہاں آتی ہے اس یونیورسٹی کی چار فکلیٹیز ہیں (1) فیکلٹی آف بزنس اینڈ لا (2) فیکلٹی آف آرٹس ہومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز (3) فیکلٹی آف ہیلتھ ایجوکیشن، میڈیسن اینڈ سوشل کیئر (4) فیکلٹی آف سائنس اینڈ انجینئرنگ۔ برطانیہ کی ترقی میں اس ملک کے تعلیمی نظام، تعلیمی اداروں اور خا ص طور پر یہاں قائم 160 یونیورسٹیز کا کردار بڑا اہم ہے جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ تعلیم اور خاص طور پر سائنس کی تعلیم اور تحقیق کے لئے آتے ہیں کیونکہ دنیا کی چند بہترین یونیورسٹیز خاص طور پر کیمبرج یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں موجود ہیں جو گذشتہ کئی صدیوں سے حصول علم کی ضرورتوں کو پورا کر رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن اداروں کے تعلیمی معیار اور علمی وقار میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور پاکستان کے دیگر کئی تعلیمی ادارے ایسے تھے جہاں دوسرے ملکوں کے لوگ (اوورسیز سٹوڈنٹس) پڑھنے کے لئے آتے تھے معلوم نہیں اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ نہیں؟