180

عمران خان سے ملاقات

عمران خان سے پرانی شناسائی ہے جب انھوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کا سب سے پہلا انٹرویو میں نے کیا تھا اس وقت ہمارا خیال تھا کہ دو بڑی جماعتوں کی اجارہ داری میں تیسری جماعت کیسے پنپ سکتی ہے اور متعدد لوگ نئی جماعتیں بنا کر اپنا شوق پورا کر چکے تھے عوام کی پذیرائی نہ ملی پھر ہمیں خدشہ تھا کہ عمران خان سیاستدان نہیں کھلاڑی ہے اسے پاکستانی سیاست کے روائیتی داو پیچ نہیں آتے لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری خواہش تھی کہ دونوں جماعتوں کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے لوگوں کے پاس تھرڈ آپشن تو ہو عمران خان جب تک لاہور رہے ان کے ساتھ رابطہ رہا لیکن اسلام آباد شفٹ ہونے اور اقتدار میں جانے کے بعد ہماری توقعات پہلے جیسی تھیں جب خان صاحب خود ہمارے دفتر آجایا کرتے تھے سیدھی بات ہے سستی ہماری طرف سے تھی ہم نے ان سے دابطہ کی کوشش ہی نہ کی اس دوران دوچار بار ہیلو ہائے ہوئی بڑے عرصہ کے بعد جمعہ کے روز ان سے پونے دو گھنٹے کی طویل گفتگو ہوئی ان کے بولنے کا سٹمینا بہت زیادہ ہے کھل کر باتیں ہوئیں حالانکہ ہماری ملاقات سے قبل وہ وکلاء اور اراکین اسمبلی سے بھی لمبا خطاب کر چکے تھے ایک تو وہ بہت بولتے ہیں اور بولڈ گفتگو کرتے ہیں ڈھکے چھپے الفاظ ان کی ڈکشنری میں نہیں ہیں ہمارے ساتھی کالم نگار نے ان سے کہا کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا میں جو بات کرتا ہوں کھل کے کرتا ہوں اور عوام کو ان کی یہی ادا پسند ہے ان کا جارحانہ انداز فاسٹ باولنگ سے لے کر آج تک برقرار ہے پرویز مشرف کی بھی لفظوں پر بڑی گرپ تھی وہ بھی بڑا لمبا بولتے تھے طاہر القادری بھی کئی کئی گھنٹے لگاتار بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں سب سے کم بولنے کا ریکارڈ عثمان بزدار کے پاس ہے میاں نواز شریف ،چوہدری شجاعت حسین، سردار عارف نکئی بھی زیادہ لمبی گفتگو نہیں کرتے لیکن عمران خان سے جس ایشو پر چاہیں گھنٹوں بات کر سکتے ہیں ملاقات میں ہم نے دیکھا کہ ان کے زخم اب مندمل ہو چکے ہیں لیکن زخموں کے نشان باقی ہیں وہ ظاہر تو نہیں کرتے لیکن ہم نے ان کے چہرے پر درد اور تکلیف کے آثار دیکھے وہ ایک ہی جگہ پر ٹانگ ساکت رکھنے سے بھی درد ہوتی ہے وہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد اپنی ٹانگ کی ڈائریکشن تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نے ان میں بلا کا اعتماد دیکھا وہ ہرقسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ حوصلہ بھی رکھتے ہیں ہم نے ان کی نااہلی اور گرفتاری بارے بھی سوال کیے ہم نے ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ ہرقسم کے حالات کو فیس کرنے کے لیے ذہنیی طور پر تیار ہیں ساتھ ہی انھیں اپنی عوامی شہرت کا بھی ادراک ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ عوام پوری طرح ان کے ساتھ کھڑے ہیں مخالفین جو مرضی کر لیں عوام ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں لہذا وہ اپنے ایجنڈے سے کسی طور پر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں انھیں یقین کامل ہے کہ اس بار عوام انھیں فیصلہ کن مینڈیٹ دیں گے اور وہ عوام سے تقاضا بھی کر رہے ہیں کہ انھیں بھر پور مینڈیٹ دیں تاکہ وہ خرافات کا خاتمہ کر سکیں میں نے مختلف حکمرانوں کے ساتھ کام کیا ہے ان کے ساتھ سفر کیے ہیں ان کی محفلوں میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے بے شمار سیاستدانوں کے انٹرویو کیے ہیں لیکن جو گفتگو کا کمفرٹیبل لیول عمران خان کی محفل میں پایا جاتا ہے وہ کسی اور کی محفل میں نہیں چوہدری فواد حسین نے ان کی گفتگو میں کئی بار اپنی بات کی مسرت جمشید چیمہ صاحبہ نے بھی لقمے دیے عمران خان نے ان کی باتوں کو سیکنڈ کیا ویسے مجھے خوشی ہوئی کہ مسرت جمشید چیمہ کی صورت میں ایک اچھے میڈیا ہینڈلر کا اضافہ ہوا ہے وہ پنجاب حکومت کی احسن انداز سے ترجمانی کے ساتھ ساتھ بہت اچھے طریقے سے زمان پارک کی بھی میڈیا مینجمنٹ کر رہی ہیں ہماری ملاقات کے حوالے سے خاص خاص باتوں کی خبریں تو میڈیا پر چل چکی ہیں ویسے بھی تو میڈیا پر عمران خان کا لبرٹی میں کھڑاک ہی پڑھا سنا اور دیکھا جا رہا ہے لیکن رپورٹر کی سرشت میں یہ شامل ہے کہ وہ ظاہری باتوں کے پیچھے چھپے معاملات کی کھوج میں رہتا ہے اور ہر بات کو شکوک وشبہات کے ترازو میں تولتا ہے نہ جانے کیوں مجھے عمران خان اور چوہدری پرویز الہی وچوہدری مونس الہی کی باتوں میں فرینڈلی فائرنگ کا گمان ہوتا ہے چوہدری صاحبان اپنے کردار کو مختلف انداز میں ادا کر کے عمران خان کے لیے راستہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں وہ عمران خان کو اعتماد میں لے کر چالیں چل رہے ہیں عمران خان نے واضح طور پہ ہمیں بتایا کہ چوہدری پرویز الہی کی خواہش ہے کہ پنجاب کی حکومت برقرار رکھی جائے لیکن ان کا سیاسی مستقبل تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہے اس لیے ہم جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہمارے ساتھ ہوں گے دوسرا انھیں ملک کی معیشت بارے بڑی تشویش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جس خوفناک انداز سے وہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کر رہے ہیں میں تو اس کا مطلب کچھ اور سمجھتا ہوں جس کا اظہار مناسب نہیں انھوں نے ہمیں بتایا کہ باجوہ صاحب تو ہمیں مودی کے ساتھ تعلقات بنانے کا کہتے تھے میں کہتا تھا کہ اس وقت مودی کے ساتھ تعلقات کی بات کرنا کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اور ان کی جدوجہد کو قبر میں دفن کرنے کے مترادف ہے کشمیر کا اسٹیٹس بحال کیے بغیر ان سے کوئی بات نہیں ہو سکتی انھوں نے بتایا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی معاملات طے کروانے کے لیے کی جانے والی ملاقاتوں اور کوششیں بارآور نہیں ہو سکیں ہم جلد الیکشن چاہتے ہیں انھوں نے بتایا کہ جنرل باجوہ شہباز شریف کو بہت پہلے وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے ہمیں اس کا علم تھا اسی وجہ سے شہباز شریف کے ثابت شدہ منی لانڈرنگ کیس میں اس کو سزا نہ ہونے دی