359

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے

میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا

جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن

مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ

ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

(احمد فراز )