Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
239

نئی نسل کی سیاست

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دیدی ہے وہ شخص جو پی ڈی ایم کے کسی لیڈر سے بات کرنا گوارا نہیں کرتا تھا ان کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا اب مذاکرات پر آگیا ہے لیکن مذاکرات وہ اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے مذاکرات بھی اس آپشن کے ساتھ کہ آپ کے پاس وقت ہے آئیں بیٹھیں الیکشن کی تاریخ طے کر لیں ورنہ میرے پاس ایسا ہتھیار ہے کہ میں آپ کو الیکشن پر مجبور کر دوں گا دوسری جانب بھی اتنی لچک ضرور آئی ہے کہ حکمران کہہ رہے ہیں الیکشن چاہیے تو آئیں ہمارے پاس مذاکرات کریں پھر الیکشن کی طرف آئیں گے پہلے الیکشن کی ضد چھوڑیں صرف مذاکرات کی بات کریں ہمیں درخواست کریں کہ، جناب جان دیو الیکشن کروا دیو،بات برف پگھلنے کی طرف جا رہی ہے لیکن دونوں دھڑوں کی انائیں رکاوٹ بن کر کھڑی ہیں لیکن ایک بات واضح ہو چکی کہ واقعی ہی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر آرہی ہے ورنہ خان صاحب تو کہتے تھے کہ میں ان سے الیکشن مانگ رہا ہوں جو ان کو لے کر آئے ہیں ان کے تو پلے کچھ نہیں جنھوں نے فیصلہ کرنا ہے میں ان سے بات کروں گا اسٹیبلشمنٹ نے واضح کر دیا ہے کہ اپنے معاملات خود حل کریں لہذا اب سیاستدان ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں اللہ کرے کہ جو جھجک رہ گئی ہے وہ بھی ختم کریں اور یہ ضد چھوڑ دیں کہ تم میرے پاس آو وہ کہتا ہے تم میرے پاس آو اگر ایک دوسرے کے پاس جانے میں کسی کی شان میں فرق پڑتا ہے تو میٹنگ کا کوئی نیوٹرل مقام رکھ لیں اب تو نوابزادہ نصر اللہ خان نہیں ورنہ وہ اب تک راہ نکال چکے ہوتے اب جماعت اسلامی اس پوزیشن میں ہے وہ نہ تو پارلیمنٹ میں ہے نہ دونوں میں سے کسی دھڑے کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہے سب منصورہ میں اکھٹے ہو سکتے ہیں اور پھر سراج الحق صاحب سب کو قابل قبول بھی ہیں اگر یہ بڑے لوگ منصورہ نہیں آنا چاہتے تو ایوان صدر میں بیٹھ جائیں لیکن خدارا اس قوم کو اس سیاسی عدم استحکام سے نجات دلائیں آپ کی سیاسی لڑائی میں ملک وقوم کا بیڑا غرق ہو رہا ہے اللہ کرے جلد کوئی راہ نکل آئے ہماری مین سٹریم کی ساری سیاسی لیڈر شپ اپنی آخری اننگز کھیل رہی ہے خدارا اگلی نسل کو اپنی سیاسی وراثت اچھے ماحول میں شفٹ کر کے جائیں انھیں دشمنی کی سیاست ورثے میں نہ دے کر جائیں سب سیاستدان اپنے جانشینوں کو اپنی سیاسی وراثت ٹرانسفر کرنے کے لیے تیاریوں میں ہیں آج کل نئی نسل کی ریہرسل جاری ہے پیپلزپارٹی تو وصیت کے مطابق بلاول بھٹو کو چیرمین بنا چکی لیکن ابھی اس کی ٹریننگ باقی ہے زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کی حکومت میں خواہش کے مطابق بلاول کو وزیر خارجہ بنوایا ایک تو وہ اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کا کیرئیر وزارت خارجہ سے شروع کروانا چاہتے تھے دوسرا وہ چاہتے تھے کہ بلاول کو وزارت عظمی کا امیدوار بنانے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک ساتھ اس کے راہ ورسم پیدا ہو جائیں لہذا وہ اپنی ابتدائی پلاننگ میں کامیاب ہو چکے ہیں پچھلے انتخابات میں وہ ملک بھر میں انتخابی مہم چلا کر اور پھر عمران خان کے دور میں کراچی سے اسلام آباد تک احتجاجی ریلی نکال کر پیپلزپارٹی کی بھاگ ڈور سنبھال چکے ہیں لیکن تاحال زرداری صاحب نے ابھی انھیں مکمل طور پر خود مختار نہیں کیا میاں نواز شریف مریم نواز کو اپنی سیاسی اساس منتقل کرنا چاہ رہے ہیں انھیں ایجی ٹیٹر کے طور پر لاونچ کیا گیا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہیں لیکن ابھی چچا جان راستے کی رکاوٹ ہیں سننے میں آ رہا ہے کہ نئے انتخابات سے قبل مسلم لیگ کی سربراہی ان کے حوالے کی جا رہی ہے یہ بھی ہو سکتا ہے میاں نواز شریف اپنے آپ کو اہل کروا کر پہلے بھائی سے خود صدارت لیں الیکشن میں خود لیڈ کریں اور پھر مریم نواز کو وراثت شفٹ کر دی جائے، میاں شہباز شریف بھی اپنی جگہ پر حمزہ شہباز کو آگے لانا چاہ رہے ہیں حمزہ شہباز کی اپنے خاندان کے لیے قربانیاں بھی بہت ہیں لیکن قسمت اس کا ساتھ نہیں دے رہی وہ اپنے والد کے دور میں ڈیفیکٹو چیف منسٹر بھی تھے لیکن جب خود چیف منسٹر بنے تو معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے اب میاں شہباز شریف اور حمزہ اپنے مستقبل کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور میاں نواز اور مریم اپنے مستقبل کی جدوجہد میں ہیں اسی طرح مولانا فضل الرحمن اپنی سیاست اپنے بیٹے کو منتقل کرنا چاہ رہے ہیں انھوں نے اسے وفاقی وزیر بنوا دیا ہے اور کاروبار سیاست بھی سمجھا دیا ہے لیکن ٹرانزیکشن ابھی مکمل نہیں ہوئی اے این پی کی سیاست بھی ولی خان کے بیٹے سے ولی خان کے پوتے ایمل کو شفٹ کی جا رہی ہے چوہدری شجاعت حسین بھی اپنی سیاست بیٹے سالک اور شافع کو منتقل کرنا چاہ رہے ہیں چوہدری پرویز الہی اپنی سیاست چوہدری مونس الہی کو منتقل کر چکے بلکہ سیاستدانوں کی نسل میں سب سے زبردست پرفارمنس مونس الہی کی ہے انھوں نے از خود اپنے راستے بنائے اور سیاسی جوڑ توڑ سے والد کو وزیر اعلی بنوایا اب بھی تمام تر سیاسی سیٹلمنٹ وہ خود کر رہے اور بروقت سیاسی سٹروک کھیلتے ہیں بولتے کم ہیں لیکن اپنی سیاسی گیمنک کی وجہ سے قومی سیاست میں اپنے آپ کو سیاسی کھلاڑی کے طور پر ایڈجسٹ کروا چکے ہیں مونس الہی نے اس وقت کے سب سے بڑے سیاسی کھلاڑی عمران خان کے دل میں جگہ بنا لی ہے جو مستقبل کی سیاست میں اس کے کام آئے گی سارے ہی سیاستدان اپنی سیاست نئی نسل کو شفٹ کر رہے ہیں اور عمران خان ابھی جوان ہو رہے ہیں