388

اصل خطرہ اور ہماری منفی سوچ

استقامت عام حالات سے نہیں بلکہ پریشان کن حالات سے مشروط ہے  ہماری کفیت اس کے برعکس ہے عام حالات میں تو ہم استقامت کا دامن تھامیں رکھتے ہیں  اگر حالات ہمارے موقوف رہیں تو  مطلوبہ نتائج   آتے  رہیں اور سارے کام سنورے   رہیں تو ایسے میں حا لات میں ہمیں حوصلہ بھی ہوتا ہےاور  ہمارا بھروسہ بھی قائم رہتا ہے اس کے برعکس جب حالات بگڑتے ہیں نہ سازگار حالات کی آندھیاں چلتی ہیں  مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہاں ہمارے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور ہم یہاں آکر استقامت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی سورۃ العصر میں اللہ پاک نے فرمایا بے کہ بےشک  انسان خسارے میں ہے۔

یا اللہ پاک میرے تمام مسلمان بھائیوں کی تمام پریشانیاں مصیبتیں تنگدستی  دور فرما  اور دین اور دنیا کی خوشحالی نصیب فرما آمین۔ میری تمام دوستوں چاہنے والوں دیکھنے والوں سننے والوں سے ایک التجا ہے  میں نے پڑھا اور سنا ہے  جب بھی کبھی  مشکل وقت آئے تو اس گھڑی میں کیا کرنا چاہیے

  توبہ استغفار  اور درود پاک اور تیسرے کلمہ کا ورد کثرت سے کرنا چاہیے   انشاء اللہ العزیز آنے والی اور آئی ہوئی تمام مشکلیں  ختم ہوجاتی ہیں   یقین کامل ہے۔

 میری تمام دوستوں سے رکویسٹ ہے اپنے لئے اپنے گھر والو کے  لئے اور امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے درود پاک اور تیسرے کلمے کا ورد کرے 

پھر دیکھیں کرم  ہو جائے گا. اور بہت ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ……. او چھوڑیں کچھ نہیں ہوتا کرونا سے……..اور کبھی کبھی بہت کچھ  ہوجاتا ہے جس کا تدارک ناممکن ہوجاتا ہے۔

کورونا وائرس، اصل خطرہ کیا ہے؟ فوجی گاڑیوں اور رینجر کی یہ قطار کسی ملک میں فوجی انقلاب کی نوید نہیں ہے بلکہ  یہ سب کچھ ہماری بہتری کے لیے ہے، ترقی یافتہ یورپ کا مڈل کلاس ملک اٹلی ہے،  جہاں کورونا اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔اس  وقت اٹلی میں اموات کی تعداد چین سے زیادہ ہوچکی تھی ۔۔ اب وہاں یہ حال ہے کہ میتیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں نہیں ہیں سو فوجی ٹرکوں میں میتیں بھر کر بغیر کسی غسل وکفن اور آخری رسومات کے دفن کی جارہی ہیں۔

ایران میں ہر دس منٹ میں کورونا سے ایک موت ہورہی ہے۔ وہ دوائیں خریدنے کے لیے ساری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے کہ بس پابندیاں ہٹالو۔۔ اب آتے ہیں پاکستان میں جہاں پوری قوم کو یہ سب کھیل تماشا لگ رہا ہے،  کچھ چیخ رہے ہیں کہ یہ سب بند کیوں کیا گیا ہے تو کچھ شہر بند ہونے کی خوشی میں دعوتیں کررہے ہیں۔۔

میں آپ کو بتاؤں اصل خطرہ کیا ہے؟  اصل خطرہ یہ ہے مرض جب بگڑتا ہے تو سوائے وینٹی لیٹر کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا اور وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پورے ملک میں کل ملا کر جو وینٹی لیٹر ہیں وہ ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔۔آپ نے یقیناً یہ تعداد پہلی بار سنی ہوگی سو اب تھوڑا گبھرا لیں۔۔

پنجاب میں سرکاری اور غیرسرکاری ملا کر کل 1700 سو وینٹی لیٹر ہیں،  بلوچستان میں کل 49 ، کے پی میں 150.. سندھ کے صحیح اعداد مجھے نہیں مل سکے لیکن اندازہ ہے کہ یہاں یہ تعداد کل چھ سو سے آٹھ سو کے لگ بھگ ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ہزاروں پرائیویٹ اسپتال ہیں،  ان اسپتالوں کے پاس وینٹی لیٹرز کی کل تعداد 175 ہے باقی تمام اسپتال محض نزلے کھانسی اور بخار کے علاج کے لیے ہیں۔۔

اب اگر یہ وبا پھیلتی ہے،  جو کہ پھیل رہی ہے،  رات گئے تک مریضوں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہوچکی تھی ۔۔ تو ان میں سے ایک خاطر خواہ تعداد کو وینٹی لیٹر درکار ہوں گے۔ یہ ڈھائی تین ہزار وینٹی لیٹر تو اس ملک کی اشرافیہ کی ضرورت کے لیے بھی ناکافی ہیں کجا یہ کہ عام آدمی کو مل جائیں۔۔ اس لیے اسکول بند کیے،  کالج یونیورسٹی بند  اور مارکیٹیں بھی بند کردیں۔۔ اب بھی اگر عوام نے سنجیدگی اختیار نہیں کی تو حکومت کرفیو لگانے کا سوچ رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو دباؤ دے کر کاروبارِ زندگی بحال کر لیں گے وہ ذرا ہوش کریں۔۔

ایک لاکھ پچھتر ہزار وینٹی لیٹر ہیں امریکا کے پاس اور وہ خوف سے لرز رہا ہے۔۔ بھارت جو ہم سے بہت آگے ہے،  وہ بھی کرفیو نافذ کررہا ہے۔ آسٹریلیا نے اپنے ملک میں داخلہ آج سے بند کردیا ہے۔ چین جیسے ٹیکنالوجی کے سپر پاور نے اس جنگ میں فتح محض لاک ڈاؤن پر عمل کرکے ہی حاصل کی ہے۔ جنوبی کوریا وغیرہ نے لاک ڈاؤن کرکے ہی خود کو بچایا ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ معاشی نقصان بےحد شدید ہوگا، یہاں آجر سفاک ہے،  دوکاندار اپنے ملازم کو بغیر کام کے تنخواہ نہیں دے گا،  روز دہاڑی والے مزدور کا چولہا دو دن سے بند پڑا ہے۔۔ لیکن اگر یہ نہیں کریں گے،  تو تصویر کا دوسرا رخ بھیانک ہے،  یاد کریں ذرا ہیٹ اسٹروک کو،  وہ صرف ایک شہر کراچی کی روداد تھی،  چار دن میں حشر یہ تھا کہ نہ کفن تھا نہ دفن کرنے والے تھے،  مردہ خانے بھر چکے تھے، نمائش چورنگی پر جے ڈی سی ٹینٹ لگا کر میتیں رکھے بیٹھا تھا۔۔  مزدور اور دہاڑی دار طبقے کے لیے مڈل کلاس اٹھے،  اور اپنے ساتھ کم از کم ایک خاندان کو ایک وقت کا راشن دلوادے۔۔ لیکن یہ جو ہدایات ہیں کہ ہاتھ نہ ملائیں،  اجتماعات نہ کریں،  گھروں میں رہیں۔ بلا سبب گھر سے باہر نہ آئیں،  ان پر خدارا عمل کریں۔۔

یہ سب مذاق نہیں ہے،  یہ ساری دنیا پاگل نہیں ہے جو اپنے کاروبار سمیٹ کر بیٹھ گئی ہے،  آپ اللہ توکل کریں لیکن اپنے انتظامات کرنے کے بعد۔۔ یہ وقت فیس بک پر میمز بنانے اور ٹویٹر پر عثمان بزدار اور عمران خان کو رگڑنے کا نہیں ہے. یہ ملک کے دشمن نہیں ہیں آپکا تعاون ہی ان کا مقصد ہی آپ کو  ایک قوم بن کر اس بحران سے نپٹنے کا ہے ۔۔ یہ وبا ہے،  یہ تیسری عالمی جنگ کے درجے کی ایمرجنسی ہے،   اسے سمجھیں اور اپنا کھلنڈرا پن ایک طرف رکھ کر پوری قوم سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔۔

ہر معاملے میں زور ذبردستی والی قوم نا بنیں اگر آپ وبا کے معاملے میں اللہ پرہی بھروسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر رزق کے معاملے میں بھی کریں۔۔ تنگی تو یقیناً ہوگی،  غذائی قلت اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہے۔۔ ایسے حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں خوراک کے معاملے میں محتاط ہونا ہے،  فضول ضیاع کو روکیں۔۔ فالتو کی دعوتیں بند کردیں، باہر نہیں جاسکتے تو یہ مطلب نہیں کہ ڈیلیوری بوائے سے کھانا منگوا کر کھایا جائے۔۔ فوڈ کا بحران اس وقت دوسرا بڑا چیلنج ہے وینٹی لیٹر کے بعد ۔۔ یاد رکھیں حکومت تنہا اس معاملے سے نہیں نبٹ پائے گی ۔۔ آپ کو،  مجھے ہم سب کو مل کر ساتھ ملکر کھڑا ہونا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں