330

ریڈ لائنز میں پھنسا پاکستان

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر گزرتے وقت کیساتھ دو طبقات نے اسلام کے نام پر عوام کا جو استحصال کیا ہے وہ یقیناً دردناک ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام سیکھانے کا دعویدار ہے یعنی دینی ٹھیکیدار اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو اسلام کے نام پر بنے اس قلعہ کی حفاظت کا دعویدار ہے یعنی فوج۔ دونوں طبقات میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے حرص۔ حرص طاقت کی ہو، اقتدار کی ہو یا دوسرے طبقات کو کنٹرول کرنے کی، اسکی تکمیل کے لئے ایک طبقے نے ہمیشہ دوسرے طبقے کو بہت خوبصورتی سے آگے کر کے عوام میں مذہب کی وہ تقسیم پیدا کی ہے جو آج جنون کی ہر حد پھلانگ چکی ہے۔ دونوں طبقات نے کمال خوبصورتی سے اپنے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچ لیا ہے جسے جدید دور میں ریڈ لائنز کہہ سکتے ہیں۔ گزرے وقت کے ساتھ ان طبقات نے سادہ لوح عوام کو اپنے پنجوں میں ایسا جکڑلیا ہے کہ اس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ طبقات اب اس ملک پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں اور جو کوئی بھی ان خودساختہ ریڈ لائنز کے گرد پھٹکتا ہے اسے ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ آئندہ اسکی اور دوسرے سب کی جرات نہیں ہوتی کہ ان لائنز کی طرف دیکھ بھی سکیں، بعض اوقات ریڈلائنز کو کراس کرنے والوں کو دنیا سے ہی اٹھا دیا جاتا ہے۔

حالیہ چند مہینوں میں بہت سے نامور صحافی، سماجی کارکن، سیاسی رہنما ان ریڈلائنز کا شکار ہو چکے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ آخر کب تک لوگ ان طبقات کے مظالم کا شکار ہوتے رہیں گے؟ ان طبقات کی حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بوجھ تلے دبی سسکتی آوازیں اب گونج میں بدل رہی ہیں۔ اس گونج کی رفتار بظاہر سست ہی سہی مگر بڑھ رہی ہے، جس سے اب ریڈ لائنز کو خطرہ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن دین کے ٹھیکیداروں اور فوجی جنرلوں نے مزاحمت کرنا شروع کردی ہے، مگر انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ عوام میں دن بدن شعور آتا جارہا ہے اور ان نام نہاد ریڈ لائنز کا ختم ہو جانا اب لکھا جا چکا ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ سسکتی آوازیں دھاڑتے ہوئے ان ریڈ لائنز کو لپیٹ کر ہمیشہ کیلئے ختم کردیں گیں۔ ان ریڈلائن کا سورج غروب ہونے کو ہے، دیر سے سہی مگر ریڈ لائنز کے سگنل ریڈار سے آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں ہے جب پاکستانی عوام ان دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور کرائے کے جنرلوں کے تسلط سے آزاد ہوجائیں گے۔

(ڈاکٹر جاسم ارشاد چٹھہ، کنیڈا)