Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
210

پاکستان آبادی کے سیلاب میں بہہ گیا

اشرف المخلوق 8 ارب ہوگئی ہے اور آبادی کی دوڑ میں ماشاءاللہ پاکستان کو نمایاں مقام حاصل ہے وطن عزیز دنیا کے ان چند ممالک میں ایک ہے جن کو بچے پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ان ممالک میں ایتھوپیا، کانگو مصر، پاکستان  بھارت، نائجیریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں پاکستان کی سالانہ آبادی ایک اشاریہ نو فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے ہر ماہ 25 سے 27 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں ہر سال دو سے آڑھائی لاکھ ووٹروں کا اضافہ ہو رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہر سال عمران خان کے ووٹروں میں دو آڑھائی لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے جب پاکستان بنا تھا تو پاکستان کی ٹوٹل آبادی 3کرڑ 40 لاکھ تھی 1951 میں پہلی مردم شماری ہوئی جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 7 کروڑ تھی اس میں ہجرت کر کے آنے والے لوگ بھی شامل تھے اس وقت مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ جبکہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی 1961 میں پاکستان کی آبادی 9کروڑ ہو گئی جس میں مشرقی پاکستان کی 5 کروڑ اور مغربی پاکستان کی 4کروڑ 28 لاکھ تھی 1971 میں جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تو ان کی آبادی 7کروڑ اور مغربی پاکستان ہماری آبادی 6کروڑ کے قریب تھی یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی زیادہ تھیں وہ ہم سے ایک کروڑ زیادہ تھے وہاں سے تمام نشستیں مجیب الرحمن جیت گئے اور یہاں اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کو مل گئی اصولی طور پر اقتدار مجیب الرحمن کو ملنا چاہیے تھا لیکن انتقال اقتدار میں تاخیر کے علاوہ وہ ہم سے علیحدگی کا فیصلہ کر چکے تھے 50 سالوں کے بعد اب پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہو چکی ہے اور بنگلہ دیش 17 کروڑ اس طرح ہم نے بنگلہ دیش سے 5کروڑ بچے زیادہ پیدا کیے ہیں حالانکہ ہم ان کے بارے میں کہتے تھے کہ انھیں مچھلی کھانے اور بچے پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں انھوں نے اپنی آبادی کو کنٹرول کر لیا اور آج وہ ترقی کی منزلوں کی طرف رواں دواں ہیں ان کی کرنسی ہم سے بہتر ہے زرمبادلہ کے ذخائر ہم کئی گنا زیادہ ہے ان کی ایکسپورٹ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے جبکہ ڈیفالٹ کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں اول تو ہم پلاننگ کرتے ہی نہیں لیکن ہماری تمام تر منصوبہ بندی چند سالوں بعد بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ آبادی کا سیلاب تمام تر وسائل اور منصوبہ بندی کو بہا کر لے جاتا ہے۔

ہمارا انفراسٹرکچر کم پڑ جاتا اگر پاکستان روزانہ کی بنیاد پر انفراسٹرکچر بنائے تو پھر بھی اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ ہر شعبہ اوور کروڈڈ ہو رہا ہے ہمارے ہاں کھمبیوں کی طرح گلی محلوں میں سکول کھل رہے ہیں لیکن پھر بھی آڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے ذرا اندازہ لگائیں ان آڑھائی کروڑ بچوں کو پڑھانے کے لیے کتنے سکول بنانے پڑیں گے ان کو روزگار کے مواقع کہاں سے ملیں گے ہر گلی محلے میں پرائیویٹ کلینک اور لاتعداد پرائیویٹ ہسپتال کھلے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں کو علاج کی سہولتیں میسر نہیں اور ذرا اس بارے بھی غور کریں آج ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں پاکستان جوانوں کا ملک ہے ہماری آبادی 60 فیصد جوانوں پر مشتمل ہے لیکن ہم ان جوانوں سے کوئی کام نہیں لے رہے آج سے پندرہ بیس سال بعد جب یہ بوڑھے ہو جائیں گے تو یہی جوان پاکستان پر بوجھ بن جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ آبادی آپ کی 30 کروڑ ہو چکی ہو گی پھر آپ کیا کہیں گے اگر آبادی پر کنٹرول کی بات کی جائے تو بہت بڑا طبقہ کہتا ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ کھانے کو بھی دے گا جس نے پیدا کیا ہے اس نے سیکڑوں دفعہ فرمایا ہے کہ اے ایمان والوں غور کرو تدبر کرو سوچ وچار کرو اللہ نے ہر معاملے میں اعتدال کا حکم دیا ہے کھانے سے لے کر اخراجات اور زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال کا حکم ہے آپ اگر روٹین سے زیادہ کھانا کھا لیں تو آپ کو بدہضمی ہو جاتی ہے تو اسی طرح دوسرے معاملات میں جب آپ انتہا پسندی کی طرف جائیں گے تو اس کے سائیڈ ایفکٹس بھی ہوں گے دلچسپ امر یہ ہے کہ جو امیر ملک میں ان کی آبادی کم ہو رہی ہے اور جو غریب ملک ہیں ان کی آبادی شتر بے مہار بڑھ رہی ہے اسی طرح ہمارے معاشرے میں جن کے پاس وسائل ہیں ان کے دو دو بچے ہیں اور جن کے پاس وسائل نہیں ان کے آٹھ آٹھ بچے ہیں اور پھر کہتے ہیں اللہ وارث ہے جو وارث ہے اس نے ہی عقل سلیم عطا کی ہے اور کہا ہے کہ غور کرو سوچو 90 کی دہائی میں ہم اپنی خبروں میں لکھا کرتے تھے پاکستان 11کروڑ افراد کا ملک ہے ہماری آنکھوں کے سامنے یہ 22 کروڑ افراد کا ملک بن گیا ہے آپ کسی بھی صورت میں اتنی بڑی آبادی کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے یا تو اس ساری آبادی کو فوری کام پر لگایا جائے اور ہر شعبے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے منصوبہ بندی کی جائے ورنہ ہم آبادی کے بوجھ تلے دب کر مر جائیں گے آج بھی لوگ دو دو ہزار کے لیے  اپنے بچے امیروں کو گھروں میں کام کرنے کے لیے دے دیتے ہیں یہ انسان فروخت کرنے والی بات ہے آپ اتنی بڑی آبادی کو نہ انصاف فراہم کر سکتے ہیں نہ صحت دے سکتے ہیں نہ تعلیم اور نہ ہی امن و امان برقرار رکھ سکتے ہیں ہماری آبادی باوسیلہ لوگوں کی غلام بنتی جا رہی ہے