296

پاکستانی تارکین وطن، مسلم اُمّہ اور پاکستانی حکومت

عصرِ حاضر میں تقریباً80لاکھ پاکستانی دنیا بھر کے35ممالک میں آباد ہیں سب سے زیادہ پاکستانی تارکینِ وطن سعودی عرب میں مقیم ہیں جن کی تعداد ایک محتاط انداز کے مطابق26لاکھ ہے۔ دوسرے نمبر پر یو اے ای ہے جہاں15لاکھ کے قریب پاکستانی آباد ہیں، تیسرے نمبر پر یونائیٹڈ کنگڈم یعنی برطانیہ ہے جہاں 12 لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور کشمیری قیام پذیر ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں5لاکھ ، عمان میں ڈھائی لاکھ، کینیڈا میں سوا دولاکھ، فرانس میں ڈیڑھ لاکھ، اٹلی میں دولاکھ، سپین میں ایک لاکھ، ساؤتھ افریقہ میں ایک لاکھ، آسٹریلیا میں 70ہزار، جرمنی میں ایک لاکھ، ملائشیا میں 60ہزار جبکہ قطر، بحرین ، ناروے ، یونان، ڈنمارک، سویڈن ، ترکی ، ہالینڈ، ایران اور افغانستان میں بھی اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جن غیر مسلم ممالک میں پاکستانی تارکین وطن رہتے ہیں اُن میں سے اکثریت یعنی99فیصد قانونی طور پر وہاں آباد ہیں اور اُن کو اُن ملکوں کے دیگر شہریوں کی طرح مکمل طور پر مساوی حقوق حاصل ہیں اور اُن سے کسی قسم کا امتیاز غیر قانونی ہے جبکہ مسلمان ممالک میں رہنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کو نہ تو کبھی اُن ممالک کی شہریت میسر آتی ہے اور نہ ہی انہیں مساوی حقوق دینے کا کوئی قانون اور تصور موجود ہے مگر اس کے باوجود ہم مسلمانوں کی اکثریت خود کو ایک ’’امت مسلمہ‘‘ سمجھتی ہے۔

انسان کی زندگی میں ہجرت ایک بہت مشکل ، کٹھن اور بے یقینی پر مبنی مرحلہ ہوتی ہے، کوئی بھی شخص اپنی خوشی اورخواہش سے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں ، پیاروں ، دوستوں اورمٹی کی محبت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، اپنے گلی، محلے، بستی، گاؤں اور شہر کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔ لہلہاتے کھیت کھلیانوں ،گیت گاتی ہواؤں، سمندر کی طرف رواں دواں دریاؤں، برف پوش پہاڑوں، تاحدِ نظر صحراؤں ( چولستان اور تھر)، دھوپ کی تمازتوں، ساون کی بارشوں ،فالسے ، جامن اور شہتوت کی لذتوں، موتیے اور چنبیلی کی حقیقی خوشبوؤں سے محروم نہیں ہونا چاہتا ۔مگر حالات اور محبوریاں اُسے یہ سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ ہجرت کے بعد اجنبی ملکوں میں آباد ہونا، اپنے لئے حالات کو سازگار بنانا، نامانوس زبان سیکھنا ، ایک مختلف تہذیب اور طرزِ معاشرت کو اپنا کر اس میں اپنے لئے گنجائش پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔غیر ممالک میں آکر آباد ہونے کے بعد خوشحالی اور آسودگی کی منزل تک پہنچتے پہنچتے عمر گزر جاتی ہے۔ ہجرت کے گرداب سے گزرنے والا ہر شخص سوچتا ہے کہ مادرِ وطن کے حالات سازگار ہوں گے تو وہ باقی زندگی اپنی مٹی کی خوشبو کے حصار میں گزارے گا مگرافسوس صد افسوس وطنِ عزیز کے حالات گزشتہ کئی دہائیوں سے سازگار ہونا تو کجا دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں جو لوگ تین چار دہائیاں یعنی تیس چالیس سال سے پہلے پاکستان چھوڑ کر اجنبی ملکوں میں آباد ہوئے تھے وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں نیاپاکستان نہیں چاہئے ، ہمارا وہی پرانا پاکستان اچھا تھا جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، ہر ایک کو کم از کم دو وقت کی روٹی میسر تھی، خوراک خالص تھی، دوائیں نقلی نہیں تھیں،معصوم بچوں اور بچیوں کو درندے نہیں نوچتے تھے، مہنگائی اور بے روزگاری انتہا پر نہیں تھی، اسلحہ اور نشہ عام نہیں تھا، عدالتوں میں انصاف سرِ عام فروخت نہیں ہوتا تھا، لوڈ شیڈنگ سے زندگی اجیرن نہیں تھی ، خود کش حملوں اور مساجد میں بم دھماکوں کا تصور نہیں تھا،مسلک اورفرقے ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے نہیں تھے، کرپٹ ، بدعنوان اورراشی افسراور سیاستدان قابلِ نفرت تھے ، جعلی ڈگری پر استاد بھرتی ہونے اور طلباء کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کبھی کوئی خبر سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتی تھی، مفاد پرستوں ، جرائم پیشہ لوگوں اور تاجروں نے سیاست کو یرغمال نہیں بنایا تھا، ڈاکٹرزقصائی اور انجینئرز موت کے ٹھیکیدار نہیں تھے۔

پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں کسی طبقے نے کوئی کس نہیں چھوڑی اس معاملے میں عوام اور خاص طور پر غریب طبقے نے بہت ’’اہم کردار‘‘ اد ا کیا ہے وہ پاکستان کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے ذمہ دار ہیں۔ پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟ اب یہ سلوگن اُن غریب ملکوں میں مقبول ہورہا ہے جن کے وسائل میں کمی اور آبادی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ آبادی اور وسائل کے عدم توازن اور دولت کی غیر مساوی تقسیم نے ملک و قوم کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے۔ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملک اپنے عوام کی زندگی کو آسان بناتے اور جدید سہولتوں سے مزین کرتے رہے ہیں جبکہ ہمارے ملک کے لوگوں کی زندگی مشکل ترین ہوکر آسانیوں اور سہولتوں سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر وہ پاکستانی تارکین وطن جو کبھی واپس آکر وطنِ عزیز میں باقی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے تھے اب پردیس میں رہنے کو ہی اپنے لیے عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ پرائے ملکوں میں انہیں صاف ستھری آب و ہوا اور ماحول کے علاوہ خالص غذا میسر ہوتی ہے انہیں اپنے کام کے لیے کسی سے سفارش نہیں کروانی پڑتی، کسی کورشوت نہیں دینی پڑتی، علاج معالجے کی سہولت بھی بالکل مفت ،24گھنٹے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عدالتیں فوری اور غیر جانب دارانہ انصاف کرتی ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ وزیر اعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کو جو سبز باغ دکھائے تھے اب اُن کی حقیقت سامنے آ رہی ہے۔، تحریک انصاف اگر اقتدار میں آتے ہی عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی تو بہت سے معاملات میں بہتری آنا شروع ہوجاتی مگر لگتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو بھی عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اپنی حکومت کی بقا سے دلچسپی ہے۔

پاکستانی تارکین وطن نہ صرف ملک کا سرمایہ ہیں بلکہ زرِ مبادلہ کی ترسیل کا بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ مشکل حالات کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران24بلین ڈالر کی خطیر رقم وطنِ عزیز بھیجی جو ایک ریکارڈ ہے۔ بیرون ملک سے بھیجے جانے والے اس زرِ مبادلہ میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ حکومت بیرونِ ملک پاکستانیوں کو اعتماد میں لے اور اُن کی تجاویز اور مشوروں پر کان دھرے۔ اوور سیز پاکستانی جب اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ شوکت عزیز ہوں یا نواز شریف پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹ کر خود اور اپنی اولاد کو بیرون ملک محفوظ تصور کرتے ہیں یا پھر ہماری فوج کے سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد آسٹریلیا ، امریکہ اور دبئی میں آبادہوجاتے ہیں اور ان ملکوں کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں تو پھر خوشحال اوورسیز پاکستانیوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمام آسانیوں اور سہولتوں کو لات مار کر پاکستان جا کر آباد ہوں یا وہاں سرمایہ کاری کریں جبکہ ہمارے اربابِ اختیار زرمبادلہ سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بیرونی دنیا میں پناہ گاہیں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں جو زرمبالہ اوور سیز پاکستانیوں کی محنت مشقت کی کمائی سے پاکستان پہنچتا ہے وہی سرمایہ ہمارے کرپٹ سیاستدان اور مفاد پرست عناصر اپنی جائیدادیں بنانے کے لیے بیرونِ ملک بھیج دیتے ہیں اگر حالات ایسے ہی رہے تو اوورسیز پاکستانی کب تک مٹی کی محبت کے قرض اتارتے رہیں گے۔ موجود وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے اوورسیز پاکستانیوں سے جو وعدے کیے تھے وہ ذرا سی فرصت نکال اُن پر ایک بار پھر غور کر لیں اور اپنی حکومتی ترجیحات ( اگر ہیں) تو ان پر نظر ثانی کریں وگرنہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے بھوکے لوگ دماغ کی بجائے پیٹ سے سوچتے ہیں اور یہی بھوک ان کو خوابِ غفلت سے جگا دیتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں جن80لاکھ پاکستانیوں نے اپنے ملک سے ہجرت کی ہے اُن کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن پاکستان کے20کروڑ سے زیادہ مفلوک الحال عوام نے جہالت سے شعور کی منزل کی طرف ہجرت کا آغاز کردیا تو پھر کسی مفاد پرست، دوغلے اور منافق سیاستدان اور حکمران کو پاکستان میں پناہ نہیں ملے گی۔٭٭٭