505

ایک پاکستانی نوجوان کی سویڈش وزٹ ویزہ نہ ملنے کی دُکھی روداد

اگر آپ غیر شادی شدہ پاکستانی شہری ہیں تو آپکو سویڈن کا وزٹ ویزہ نہیں مل سکتا، وزٹ ویزہ لینے کیلئے آپکا کوئی نزدیکی ترین رشتہ دار سویڈن میں ہونا ضروری ہے اور آپکا شادی شدہ اور بچوں والا بھی ہونا ضروری ہے، بظاہر کسی بھی جگہ ایسا قانون لکھا نہیں گیا ہے، ظاہر ہے سویڈن ایسا امتیازی قانون لکھ کر اپنی بےعزتی کبھی بھی کروانا پسند نہیں کرے گا، لیکن میرے ویزے کے مسترد ہونے سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ سویڈن نہیں چاہتا کہ کم عمر اور غیر شادی شدہ لوگ وزٹ پر سویڈن آئیں اور یہاں سیٹل ہونے کیلئے تگ ودو کریں، اس تحریر میں اپنی آپ بیتی بتانے کا مقصد بھی میرا یہی ہے کہ میں آپ کے سامنے یہ بات ثابت کرسکوں۔

کئی سالوں سے سویڈن میں میرے بہت سارے سویڈش دوست ہیں اور ان میں سے ایک دسمبر 2013 میں پاکستان کے شہر لاہور میں مجھ سے ملنے بھی آیا تھا، اسے اب بھی میری والدہ کے پراٹھے یاد ہیں، اس نے اپنی زندگی میں جو کچھ کھایا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ پاکستانی کھانا پسند کرتا ہے۔ میں اسے حفیظ سنٹر لے گیا ، وہاں موجود کاروبار اور لوگوں کا بےپناہ رش دیکھ کر وہ حیران رہ گیا، اس نے مجھے بتایا کہ اس نے زندگی میں 30 سے زیادہ ممالک وزٹ کیئے ہیں، لیکن ایسا کچھ کہیں نہیں دیکھا جو حفیظ سنٹر میں دیکھا ہے۔

دوست میرے گھر ہفتہ گزار کر واپس چلا گیا، اب اس سے اور اسکی فیملی سے ملنے کی باری میری تھی۔ میں ایک ٹیکنالوجی ایونٹ ، ڈریم ہیک فیسٹیول میں جانے کے لئے سویڈن جانا چاہتا تھا، جو سال میں صرف دو بار ہوتا ہے اور اس میں دنیا بھر سے آنے والے 25،000 سے زیادہ شرکاء شریک ہوتے ہیں، جب میں 12 سال کا تھا تب سے اس فیسٹیول میں جانا میرا ایک خواب ہے، اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میں نے کچھ رقم بچائی اور میرے سویڈش دوست کی والدہ نے مجھے سیر کیلئے ایک دعوت نامہ بھی بھیج دیا، جس کے بعد میں نے ویزا کے لئے درخواست دے دی۔
مجھے یہاں یہ ذکر کرنا چاہئے کہ سفارتخانے کے قوانین کے مطابق میری درخواست ’’ بالکل ‘‘ ٹھیک تھی، اس میں کوئی دستاویز بھی کم نہیں تھیں یا اسے غلط طور پر پُر نہیں کیا گیا تھا، درخواست بھیجنے سے پہلے میں نے تین دفعہ چیک کر لیا تھا۔ میں واضح طور پر کسی ایسی وجہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا جسکی وجہ سے وہ مجھے ویزا سے انکار کردیں، مجھے اتنا یقین تھا کہ مجھے ویزا مل جائے گا، اسی لئے میں نے واپسی کا ٹکٹ بھی خرید لیا، یہ میرا پاکستان سے باہر کا پہلا سفر تھا اور میں اسکے لیئے جتنا پرجوش تھا، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔

کچھ دن بعد ، مجھے سفارتخانے سے ایک ٹیکسٹ میسج وصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ میرے کیس کا فیصلہ ہوگیا ہے، میسیج پڑھتے ہی میں جلدی سے سفارت خانے کی طرف روانہ ہوگیا لیکن جب میں وہاں پہنچا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ میری درخواست مسترد کردی گئی تھی، میں نہایت افسردگی کیساتھ گھر واپس آیا اور درخواست مسترد ہونے والے خط کو پڑھنا شروع کیا، انہوں نے میرے ویزا کو مسترد کرنے کی دو اہم وجوہات لکھی تھیں ، ان دونوں باتوں کا قوانین کے مطابق قطعاً بھی میرے کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔

پہلی وجہ:
“آپ کے دعوت نامہ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ خود سویڈن میں اپنے قیام کے لئے ادائیگی کریں گے ، تاہم آپ نے اس کی حمایت کیلئے کوئی بینک اسٹیٹمنٹ نہیں لگائی ہے۔”
میں نے کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ میں خود اپنے قیام کی قیمت ادا کروں گا، اس میں لکھا گیا تھا کہ جس شخص نے مجھے مدعو کیا ہے وہ میرے قیام کی کفالت کرے گا، احتیاط کے طور پر گذشتہ چھ ماہ کی بینک اسٹیٹمنٹس بھی میں نے اپنی درخواست کیساتھ منسلک کی تھیں۔

دوسری وجہ:
“آپکی پاکستان واپسی کی معقول وجہ کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔”
اسکے لئے ، ویزا کی ضرورت کے طور پر ، انہوں نے واپسی کے ٹکٹ کی بکنگ یا اتنی ہی رقم ظاہر کرنے کو کہا تھا، جس سے واپسی کا ٹکٹ خریدا جاسکے۔ میں نے مکمل ادائیگی کیساتھ، واپسی کا ٹکٹ بھی منسلک کر دیا تھا، یہ سب ویزا درخواست کی ضروریات سے زیادہ تھا، دوم ، میری عمر 17 سال ہے اور میرا خاندان، گھر ، دوست اور سکول سب پاکستان میں موجود ہیں، اور میرے پاس ویزا کی اجازت سے زیادہ لمبا عرصہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔

چنانچہ میں نے فوراً ہی سویڈش سفارت خانہ فون ملا دیا، دوسرے سرے پر ایک انتہائی بے رحمانہ خاتون نے میرا استقبال کیا، میں نے نہایت پُرسکون اور شائستہ لہجے میں اس سے پوچھا کہ کیا مجھے دوبارہ درخواست دینی چاہئیے اور مزید کون سی اضافی دستاویزات کی ضرورت ہے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ،
“آپ کو وہی درخواست بھیجنی چاہئے جو پہلے بھیجی تھی۔”
میں نے پھر استفسار کیا کہ یہ میری پہلی درخواست سے کس طرح مختلف ہوگی کیونکہ اس کو مسترد کردیا گیا ہے، اس پر ، اس نے جواب دیا کہ، “ہوسکتا ہے جس شخص نے آپ کی درخواست کی جانچ کی ہو اسے یہ پسند نہ آئی ہو اور ہوسکتا ہے کہ اگلی بار کوئی دوسرا آفیسر آپکی درخواست منظور کرلے۔”

یہ جواب مجھے نہایت عجیب لگا، کیا میری درخواست ایک کڑوی ٹافی تھی جو اسے زیادہ پسند نہیں آئی اور اس نے میری درخواست مسترد کردی، یہ کس قسم کا جواب تھا، میں اسے کچھ سخت الفاظ کہنا چاہتا تھا لیکن لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے ، میں نے نہایت نرمی سے اس کا شکریہ ادا کیا اور کال کا سلسلہ منقطع کردیا۔

میں نے نئی درخواست دینے کی بجائے موجودہ فیصلے پر ہی اپیل دائر کر دی، اس اپیل کو سویڈن میں موجود ’’ ہجرت عدالت ‘‘ میں چیک کیا گیا، مجھے امید تھی کہ وہ دیکھیں گے کہ میرے ساتھ غلط ہوا ہے اور شاید مجھے ویزہ مل جائے، اسلئے میرے پاس ابھی ویزہ ملنے کی تھوڑی سی امید باقی تھی۔

ڈیڑھ ماہ بعد ، مجھے سویڈن سے ہجرت عدالت کا خط موصول ہوا، میں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا، اس میں کہا گیا تھا کہ مجھے ایسی دستاویزات منسلک کرنا چاہئیے تھیں، جیسا کہ ریئل اسٹیٹ کی دستاویزات، ملازمت کا ثبوت، ریٹرن ٹکٹ وغیرہ، میں 17 سال کا ہوں ، اور میرے پاس منقولہ اور غیر منقولہ قسم کی جائدادیں نہیں ہیں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ملازمت ہے۔

سویڈن کو چھوڑیں دنیا کے کسی بھی ملک کے ویزا قوانین میں اس بات کا ذکر موجود نہیں ہے کہ صرف 17 سال کی عمر کے حامل لوگ اپنی املاک سے متعلق دستاویزات یا ملازمت کا ثبوت دیں، یہ بات بالکل واضح تھی کہ مجھ سے میری ملکیت کی دستاویزات طلب کی جارہی تھیں، نہ کہ میرے والدین یا گھر والوں سے۔ میں نے پہلے ہی واپسی کا ٹکٹ منسلک کردیا تھا ، لہذا مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ مجھ سے دوبارہ ایسے سوالات کیوں کررہے ہیں?۔

یہ میرے لئے کافی الجھا ہوا مسئلہ تھا ، اسلیئے میں نے سویڈن کے ہجرت بورڈ سے ای میل کے ذریعے رابطہ کرنا شروع کیا جو ویزوں سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے “اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ میں واپس آؤں گا”۔ جب میں نے پوچھا کہ کیسا ثبوت دینا چاہئے تو ، ان کا جواب تھا ،
“ہم اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ وہ کون سے ثبوت ہیں۔”
پھر میں نے پوچھا کہ مجھے جائیداد کی دستاویزات بھیجنے کے لئے کیوں کہا گیا جبکہ میں صرف 17 سال کا ہوں۔ ان کا جواب تھا ،
“اگر آپ کے پاس رئیل اسٹیٹ نہیں ہے تو آپ کو ایسی دستاویزات منسلک نہیں کرنا چاہئیں۔”
میں نے پھر پوچھا،
“پھر میں کیا منسلک کروں؟”
انہوں نے جواب دیا،
“ہم اس کی قطعی طور پر تصدیق نہیں کرسکتے ہیں۔”

میں ان سے آسان سوالات پوچھ رہا تھا لیکن مجھے کوئی حقیقی جواب نہیں مل رہا تھا، لہذا میں نے انہیں ای میل کرنے کے بجائے، اپنی کہانی کو ایسے سویڈش فورم پر پوسٹ کرنے کا فیصلہ کیا جہاں لوگ ویزے سے متعلق معلومات کے بارے میں مدد حاصل کرنے آتے ہیں، بہت سارے لوگوں نے مدد کی پیش کش کی، اور مشورہ دیا کہ مجھے اپنے سکول سے ایک خط منسلک کرنا چاہئے تھا کہ میں نے واپس آ کر اپنی پڑھائی مکمل کرنی ہے، مزید مجھے یہ ثابت کرنے کے لئے اضافی دستاویزات دینی چاہیے تھیں کہ میں ہر صورت واپس آجاؤں گا۔ کچھ دن بعد ، ایک کیس آفیسر جو منتقلی بورڈ کے لئے کام کرتا تھا اس نے میری ای میل کا جواب کچھ ایسے دیا کہ،
“پچھلے سال 370 پاکستانی شہریوں نے وزٹ ویزہ پر آ کر سویڈن میں سیاسی پناہ کے لئے درخواست دی ہے، لہذا ، انٹری ویزا صرف ان پاکستانیوں کو دیا جارہا ہے جو سویڈن میں اپنی فیملی کے افراد سے ملنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور جو یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستانی معاشرے میں مضبوط ہیں۔ مضبوط ہونے کا مطلب ہے کہ انکا پاکستان میں اپنا خاندان یعنی شوہر ، بیوی ، بچے موجود ہیں، انکے نام بڑی جائیداد اور کوئی بڑا کاروبار موجود ہے، یا وہ کوئی بڑی تنخواہ والی پکی نوکری کرتے ہیں اور ان تمام چیزوں کی وجہ سے انہیں ہر حال میں پاکستان واپس آنا ہے، اگر وہ سویڈن میں قیام طویل کریں گے تو انکا پاکستان میں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس بات کا امکان بالکل نہیں ہے کہ کسی بھی پاکستانی کو دور دراز کے رشتہ دار یا دوستوں سے ملنے یا بطور سیاح سویڈن جانے کے لئے ویزا جاری کیا جائے اور مندرجہ بالا وجوہات نہ دیکھی جائیں۔
دوسرے الفاظ میں، میں نے اسکا مطلب کچھ اس طرح لیا کہ، “چونکہ 220 ملین یا بائیس کروڑ پاکستانی آبادی میں سے 370 پاکستانیوں نے کچھ غلط کام کیا ہے، لہذا اب ہم ان سارے پاکستانیوں پر پابندی عائد کر رہے ہیں جو بچوں کے ساتھ شادی شدہ نہیں ہیں یا جنکا سویڈن میں کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے، اسلئے ایسے لوگ سیر کیلئے سویڈش ویزہ حاصل نہیں کرسکتے?۔”
اس سے یہ ثابت ہوا کہ سفارتخانے کی طرف سے مجھے جو ساری وجوہات دی جارہی تھیں وہ اصلی حقیقت کو چھپانے کیلئے بنائی گئی تھیں اور مجھے ویزا اسلئے نہیں دیا گیا کیونکہ میں ایک غیر شادی شدہ پاکستانی ہوں اور میرے پاس بڑے بڑے اثاثے موجود نہیں ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پہلے ہی دنیا کا تیسرا بدترین پاسپورٹ ہے اور اب بہت سے ممالک پاکستانیوں کو وزٹ ویزا حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد کر رہے ہیں?۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سویڈن یہ کام بلاجواز کررہا ہے لیکن اس سے بہتر طریقہ یہ ہوتا کہ وہ غلط کام کرنے والوں کو سزا دیتے نہ کہ پورے ملک پر پابندی لگاتے، جہاں میرے جیسے بہت سے بے گناہوں کو بھی دوسروں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے، 370 پاکستانیوں کے کیئے گئے غلط کام کی سزا مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کو مل رہی ہے، میرا قصور یہی ہے کہ میں بھی ایک پاکستانی ہوں۔

دوسری طرف ، میرا ایک دوست جو میرے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتا تھا، وہ بھی اتنا ہی پاکستانی ہے، جتنا میں، فرق صرف اتنا تھا کہ وہ کینیڈا میں پیدا ہوا تھا اور کینیڈا کی شہریت رکھتا ہے، وہ کسی قسم کے ویزا کے بغیر سویڈن جاسکتا ہے۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ جس مقام پر آپ پیدا ہوئے ہوں اس سے آپکی زندگی پر بُرا اثر پڑے?۔

ایک طویل عرصہ پیسے جمع کرنے، مختلف منصوبے بنانے اور سویڈن سے سیر کا دعوت نامہ ملنے کے باوجود مجھے وزٹ ویزا نہیں دیا گیا کیونکہ میں ایک غلط ملک میں پیدا ہوا تھا، کیا پاکستانی ہونے کا مطلب ہے کہ میں ایک کم تر انسان ہوں؟ کمتری کے اس احساس نے نہ صرف مجھے غمگین کردیا ہے بلکہ ویزہ مسترد ہونے سے میرا بچپن کا خواب بھی ٹوٹ گیا ہے??۔
(انگلش اخبار ٹری بیون میں پبلش ہوئی دُکھی پاکستانی نوجوان کی داستان جسے میں نے اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کی ہے??)
#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں