Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
260

سیاسی شطرنج

سیاست تحریک کا نام ہے سیاسی کھلاڑی ہر وقت ہر قسم کے حالات میں پرفارم کرتا ہے جو کھلاڑی آرام کرنے کی غرض سے پردہ سکرین سے غائب ہوتا ہے وہ آوٹ ہو جاتا ہے کئی سیاستدان ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بام عروج کو پہنچے اور کئی جو عروج کی بلندیوں پر راج کرتے تھے ایسے غائب ہوئے کہ اب وہ مستقل غائب ہو گئے ہیں مسلم لیگ ن کے روح رواں میاں نواز شریف تین سال سے لندن بیٹھے ہیں حالانکہ مسلم لیگ میں ان کی اجازت کے بغیر پتہ نہیں ہلتا اور جب جی چاہے جس کو چاہیں طلب کر لیتے ہیں لیکن عوام میں نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ کے بہت سارے معاملات خراب ہو رہے ہیں پنجاب جو کہ ن لیگ کا بیس کیمپ تھا وہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اب اگر میاں صاحب واپس بھی آتے ہیں تو انھیں بڑی محنت کرنا پڑے گی دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف جہد مسلسل میں مصروف ہے عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں جت گیا بظاہر کر تو احتجاج رہا تھا لیکن یہ انتخابی کمپین تھی عمران خان سیاسی شطرنج پر نت نئے داو پیج آزما رہا ہے لیکن دوسری طرف بھی 13 سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار کھلاڑی مل کر ایسی چال چلتے ہیں کہ عمران خان کی ایک نہیں چلنے دے رہے جوڑ عجیب طرح کا ہے ایک جگاڑ اور اختیارات کے ذریعے ہر چال کو ناکام کر رہا ہے اگر حکمران عمران خان کو نئے انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تو عمران خان بھی عوام میں ان کی جڑیں کترتا جا رہا ہے جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے عوام میں جانے کا خوف گہرا ہوتا جا رہا ہے وفاق کے آتحادی حکمران عمران خان کی شہرت کو کم کرنے کے ہر داو پیج میں تاحال ناکام رہے ہیں اب ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو نا اہل کروایا جائے اور جب نااہلی ہو جائے تو گرفتار کر لیا جائے عمران خان اس وقت عوامی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے ہر حربہ ناکام کیے جا رہا ہے لیکن کہتے ہیں ڈرا ہوا خوفزدہ آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے تو حکمران کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں عمران خان نے 26 نومبر کو پنڈی سے اسلام آباد جانے کی بجائے لاہور آنا پسند کیا لیکن انھوں نے براہ راست ٹکراو سے بچنے کے لیے سیاست میں ایک نئی چال چلی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلی توڑنے سندھ اور بلوچستان سے استعفے دینے کی چال چار دن تو بڑی کارگر رہی لیکن اتحادی چوہدری مونس الہی اور چوہدری پرویز الہی کے انٹرویوز نے حالات کو ایک نیا موڑ دیدیا ہے اب نظر آ رہا ہے کہ شاید اسمبلیاں نہ ٹوٹیں۔

میرا خیال ہے کہ عمران خان بھی نئی اسٹیبلشمنٹ کو ابھی کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہ رہے صدر مملکت نے بھی کہا ہے کہ ادارے کے خلاف کسی قسم کی بات نہیں کرنی چوہدری فواد حسین نے بھی واضح کیا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہے ہیں مجھےلگتا ہے کہ عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کا فلر چھوڑا تھا مقصد اس کا کچھ اور تھا ان کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے حکومت اس تھریڈ سے خوفزدہ ہو کر انتخابات پر مذاکرات کی طرف آجائے پہلے پہل تو حکومت کے ہاتھ پاوں پھول گئے تھے لیکن بعد میں کہیں سے معاملات مینج ہوئے ہیں جن لوگوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنا ہوتی ہیں وہ یہ بات صیغہ راز میں رکھتے ہیں اور عمل کرنے تک اپنے منصوبے کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے وہ اس طرح اعلان کرکے مشاورت نہیں کرتے اب لگتا ہے کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا معاملہ ساتھ ساتھ چلتا رہے گا لیکن انھوں نے اگلے پروگرام کا اعلان کر دیا ہے انھوں نے آج سے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے اور پاکستان بچاو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے یہ شطرنج کی نئی چال ہے لیکن عمران خان اس کے ساتھ ساتھ اگلے انتخابات کے لیے تیاریوں کا بھی بغل بجا چکے وہ حلقوں میں امیدواروں کی سلیکشن کا پراسس شروع کر رہے ہیں اب الیکشن جب بھی ہوں تحریک انصاف کی الیکشن مہم شروع ہو چکی ہے اگر وہ اگلے تین چار ماہ میں اپنے امیدوار فائنل کر لیتے ہیں تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے بہت آگے نکل جائیں گے عمران خان اس بار وفادار اور جدوجہد کرنے والے بہتر امیدواروں کو آگے لے کر آنا چاہتے ہیں انھیں یقین ہے کہ اس بار اس کے کھمبے بھی جیت جائیں گے عین ممکن ہے کہ چوہدری پرویز الہی اور عمران خان مل کر کسی منصوبہ بندی کے تحت نئی چال چل رہے ہوں کیونکہ عمران خان چوہدری پرویز الہی کے ایکٹ پر پر اسرار طور پر خاموش ہیں ورنہ وہ تو ایڈوانس میں چل رہے ہوتے ہیں ہوسکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہی سے یہ کام اسمبلیوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے کروایا جا رہا ہو اور ابھی اسمبلی توڑنا مقصود ہی نہ ہو اس عمل سے ان کے ارکان اسمبلی بھی چیک ہو گئے ہیں انھیں پتہ چل گیا ہے کہ کون قیادت کی آمین میں آمین کہتے ہیں اور کون حیلوں بہانوں سے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں پاکستان کی سیاسی شطرنج پر ابھی کافی مہرے اپنی جگہوں پر مضبوطی سے بیٹھے ہیں اللہ جانے کون کیا کر جائے۔