240

سیاسی سپورٹرز برطانیہ بمقابلہ پاکستان

برطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں اور سپورٹرز کا طرز عمل ، سوچ اور نفسیات ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے عوام سے بالکل مختلف ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں سیاسی سمجھ بوجھ اور ادراک رکھنے والے لوگ، شخصیات یعنی سیاستدانوں کی بجائے پارٹی کے منشور اور پالیسیز کی حمایت کرتے ہیں۔ اس ملک میں کبھی کسی پارٹی سپورٹر کو اس قسم کے نعرے لگاتے نہیں سنا گیا، زندہ ہے چرچل زندہ ہے، قدم بڑھائو ٹونی بلیئر ہم تمہارے ساتھ ہیں، بورس آیا سب پہ چھایا، ایک مداری سب پہ بھاری، آئے گا کپتان بنے گا نیا انگلستان۔ گوروں کے دیس میں سیاسی شعور کی بنیادی وجہ صرف اور صرف خواندگی کی شرح کا 100فیصد ہونا ہے، سیاسی شعور تعلیم وتربیت کی وجہ سے اجاگر اور بیدار ہوتا ہے وگرنہ کوئی نعرہ یا شخصیت پرستی کا کوئی ڈھکوسلہ عوام کو سیاسی ، سماجی اور اخلاقی شعور سے آشنا نہیں کر سکتا۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا آیا ہو جب یہاں کے لوگوں نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، منشور اور پالیسیز کو نظر انداز کر کے شخصیت پرستی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ہو۔

برطانیہ میں بریگزیٹ کے سلسلے میںجب 23 جون 2016ء کو ریفرنڈم کا اہتمام کیا گیا تو اس موقع پر یونائیٹڈکنگڈم کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکمران ٹوری پارٹی اور اپوزیشن لیبر پارٹی یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھی اور انہوں نے مل کر بھرپور مہم چلائی تاکہ عوام کو یورپی یونین میں شامل رہنے کے لئے قائل کیا جا سکے۔ اس موقع پر برطانیہ کی تمام سیاسی لیڈر شپ ایک طرف تھی اور یورپی یونین سے نکلنے کے حامی عوام ایک طرف اور ریفرنڈم کے نتیجے میں عوام کو فتح اور سیاسی قیادتوں کو شکست ہوئی جسے جمہوری تقاضا سمجھ کر قبول کیا گیا اسے کہتے ہیں سیاست میں جمہوریت اور جہمور کی طاقت۔برطانوی جمہوریت میں سیاسی کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اس ملک کے چلانے والوں اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے والوں کو معلوم ہے کہ اگر ہمارا سیاسی نظام کرپٹ ہو کر زوال کا شکار ہو گیا تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑیں گے اور پھر رفتہ رفتہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آنا شروع ہو جائے گا جس کی بڑی مثال بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہونے والی سیاسی کرپشن ہے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرانی ان اوورسیز پاکستانیوں پر ہوتی ہے جو برطانیہ جیسے سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے سیاستدانوں یا حکمرانوں کی حمایت کرنے اور انہیں دیانتدار اور ملک وقوم سے مخلص ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے بلکہ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعض سیاسی خاندانوں کی نسل در نسل حکمرانی کی مثال دے کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وراثتی اجارہ داری کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک اطالوی کہاوت ہے کہ اگر آپ کا ایک ہمسایہ گوبر کھاتا ہے تو آپ کو بھی گوبر کھانے کی بجائے کسی ایسے ہمسائے کی تقلید کرنی چاہئے جو کوئی صحت بخش غذا کھاتا ہو۔میرے کئی مہربان میرے کالمزپڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ تنقید کرنا اور مسائل کی نشاندہی سب سے آسان کام ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بتایا جائے۔ میں اپنے ان کرم فرمائوں کی خدمت میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ پرائمری سطح سے اعلیٰ تعلیم وتربیت کو اپنی پہلی ترجیح بنا کر ہی تمام ممالک نے ترقی اور خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا اور مکمل خلوص نیت سے کرنا ہو گا۔ جو پودے ہم آج لگائیں گے وہ دس بیس سال بعد پھل اور سایہ دینا شروع کریں گے۔ جو پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا اس کی فکر چھوڑیںجس پانی نے ابھی پل کے نیچے سے گزرنا ہے اسے گدلا ہونے سے بچائیں۔ جو پودے تناور درخت بن کر بھی پھل اور سایہ نہیں دے رہے ان پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اس پنیری کی حفاظت اور دیکھ بھال کریں جو بڑی ہو کر پھل اور سایہ دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ علم ہی ترقی اور خوشحالی کا زینہ ہے۔ ہم کسی اور رستے پر چلیں گے تو کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو چاہئے کہ اپنے قائدین کی اندھی تقلید کی بجائے ان کی کارکردگی اور ترجیحات پر غور کریں۔ اگر ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ترجیحات میں اپنی قوم کے ہر فرد کے لئے معیاری پرائمری تعلیم وتربیت پہلی ترجیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور ملک کے مستقبل سے مخلص ہیں اور اگر ان کی ترجیحات پہلی ترجیح کچھ اور ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ محض اقتدار کے بھوکے ہیں اور اختیارات کے متمنی ہیں۔

ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو جاہل عوام اور بے دماغ سپورٹر بہت راس آتے ہیں کیونکہ وہ محض نعروں اور جھوٹے دعووں سے بہل جاتے ہیں۔ کبھی ان کی کارکردگی اور منشور پر عملدرآمد کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتے۔یہ حقیقت بھی کتنی دلچسپ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں ایک سے ایک دانشور سیاستدان اور تجربہ کار عوامی نمائندے موجود ہیں لیکن جب کبھی پاکستان الیکشن کمیشن کی فائل کی خانہ پری کرنے کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں تو کوئی اعتزاز احسن ، کوئی احسن اقبال، کوئی شاہ محمود قریشی ، کبھی بلاول بھٹو، شہباز شریف یا عمران خان کے مقابلے میں پارٹی کی سربراہی کا انتخاب لڑنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ جب عوام کے نمائندوں اور مقبول سیاستدانوں کی جی حضوری کا یہ عالم ہو تو بے چارے عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں اور عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اس کلچر کو بدلیں ۔ شخصیت پرستی کی بجائے قابلیت کو معیار بنا کر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی حقیقی لیڈر شپ کے ہاتھ مضبوط کریں۔ سب سے پہلے اپنی اپنی پارٹی میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کریں تو پاکستان میں جمہوریت خود بخود مستحکم ہونا شروع ہو جائے گی۔ برطانیہ میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی ممبر شپ پر خاص توجہ دیتی ہیں کیونکہ پارٹی کے یہی اراکین سیاسی تربیت کے عمل سے گزر کر کونسلز اور پارلیمنٹ کے امیدوار چنے جاتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت ان ممبرز کو اپنا اثاثہ اور پارٹی فنڈ کا ذریعہ سمجھتی ہے۔

پارٹی کے یہی اراکین اپنے اپنے حلقوں سے مقامی کونسلز اور برطانوی پارلیمنٹ کے لئے امیدواروں کی سلیکشن کرتے ہیں۔ یہاں کوئی پارٹی لیڈر اپنے طور پر کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دے سکتا کیونکہ اسے بنیادی جمہوریت کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔اس وقت برطانیہ میں لیبر پارٹی کے اراکین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یعنی 4لاکھ 96ہزار لوگ اس کو ماہانہ چندہ دیتے ہیں۔ ماہانہ ممبر شپ فیس تقریباً ساڑھے چار پائونڈ ہے جبکہ 26سال سے کم عمر ممبرز کے لئے یہ فیس نصف ہے۔ لیبر پارٹی کے قیام کو ایک سو اکیس برس ہو چکے ہیں ۔ یعنی یہ پارٹی 1900ء میں قائم ہوئی تھی جبکہ 1834ء میں قائم ہونے والی کنزرویٹو (ٹوری) پارٹی کے باقاعدہ اراکین کی تعداد ایک لاکھ 80ہزار ہو جو سالانہ 25پائونڈ ممبر شپ فیس ادا کرتے ہیں اور 26سال سے کم عمر اراکین کے لئے یہ فیس پانچ پائونڈ سالانہ ہے۔ممبرز کی یہ فیس بینکوں کے ذریعے پارٹی فنڈ میں منتقل ہوتی ہے اس لئے پارٹی اراکین کی تعداد اور رقم کو خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔اسی طرح سکاٹش نیشنل پارٹی کے باقاعدہ ممبرز کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چھبیس ہزار اور لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ 21ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں جمہوری استحکام کو یہاں کی سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی اور مستحکم جمہوری عمل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ برطانوی سیاسی جماعتوں میں طاقت کا اصل سرچشمہ اس کے ممبرز ہیں ۔ جن اسلامی ملکوں میں مغربی جمہوری نظام رائج ہے جب تک وہاں کی سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو گی تب تک یہ جمہوری نظام ان ملکوں میں سیاسی بدعنوانی، اقربا پروری اور مسائل میں اضافے کا سبب بنتا رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی پارٹیز کے اندر برطانوی طرز پر حقیقی جمہوریت لانے کے لئے متحد ہو جائیں۔ منظم ہو جائیں اور شخصیت پرستی کے طلسم سے آزاد ہو کر جمہوری سوچ اپنائیں وگرنہ نظریہ ضرورت والی اس جعلی جمہوریت کے ذریعے نہ تو پاکستان جمہوری طور پر مستحکم ہو گا اور نہ ہی ہماری سیاسی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی طاقت کی اہمیت کو سمجھیں اور جن چند خاندانوں نے ملک کے جمہوری اور سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے ان کی کارستانیوں اور چالبازیوں کا ادراک کریں۔ سیاسی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں۔ وگرنہ آپ کے بعد آنے والی نسلوں کی زندگیاں بھی روشن صبح کے انتظار میں یونہی گزریں گی اور ان پر بھی انہی سیاسی ڈکٹیٹرز کی اگلی نسلیں یونہی مسلط رہیں گی اور ہم جیسے لکھنے والے اپنی تحریروں سے سیاسی کارکنوں کے شعور کو بیدار کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہیں گے۔