188

قانون کا مذاق

بنیادی طور پر قانون کا ایک خوف ہوتا ہے جو شہریوں کو قانون کے تابع رکھنے کے کام آتا ہے تاکہ لوگ بندے دے پتر بن کے سیدھے راستے پر چلیں جن معاشروں میں قانون مذاق بن جائے وہاں سب طاقت کے تابع ہو جاتے ہیں کچھ عرصہ سے جو کچھ قانون کے ساتھ ہو رہا ہے اس نے ملک وقوم کا وقار خاک میں ملا دیا ہے جب ریاست بات بات پر دہشتگردی کے مقدمے درج کرے گی جب بولنے پر ملک کے خلاف سازش کے مقدمے بنائے جائیں گے اور مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ماورائے آئین اور قانون حربے استعمال کیے جائیں گے تو پھر سنگین دفعات کی حساسیت اور سنگینی ختم ہو جائے گی حکومت نے تحریک انصاف کو دبانے کے لیے قانون کا جتنا بے دریغ استعمال کیا ہے قانون کی حرمت تار تار کر کے رکھ دی ہے اب اس ملک کا عام شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ حقیقت میں اس ملک میں کوئی قانون نہیں جس کے پاس اختیارات ہیں قانون اس کے تابع ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قانون کوجائز ناجائز استعمال کرے اس کوکوئی پوچھنے والا نہیں عمران خان چھینک بھی مارے تو مقدمہ درج ہو جاتا ہے اب تک 76 مقدمات درج ہو چکے ہیں ان کے ساتھیوں کو ڈرانے کے لیے ان پر بھی درجنوں مقدمات درج کر دیے گئے پہلے پہل تو لوگ کنفویژ تھے کہ شاید عمران خان خلاف قانون حکومت کو تنگ کر رہا ہے اس لیے اس کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں لیکن پے درپے مقدمے درج کرکے اب حکومت اپنا مذاق اڑوا رہی ہے 8مارچ کو زمان پارک میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر ہونے والے ظلم وستم نے تو مکمل طور پر حکومت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے ساری دنیا نے دیکھا کہ پولیس نے ریلی کےلیے اکھٹے ہونے والے ورکرز پر وحشیانہ تشدد کیا بے گناہ شہریوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے اور نہ جانے کس کے کہنے پر ایک معصوم ورکر کو تشدد کرکے مار دیا لاہور کے شہری ان واقعات کے عینی شاہد ہیں اور کیمرے کی فلموں کے انمٹ شواہد پوری دنیا نے دیکھے ہیں ان واقعات کے دوران عمران خان اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے فواد چوہدری اسلام آباد میں موجود تھا لیکن ان سب پر اپنے ہی ورکر کے قتل، اقدام قتل اور جو دفعات درج کی جا سکتی تھیں سب کو لگا کر مقدمہ درج کر لیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس خود ہی تشدد کرنے والی ہے خود ملزم ہے لیکن وہ خود ہی مدعی بن گئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس نے خود ہی اس کیس کی تفتیش کرکے عدالت کوبتانا ہے اس میں کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ ہے چونکہ پولیس نے تحریک انصاف کے قائدین اور ورکروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے تو یہ اختیار بھی پولیس کے پاس ہے کہ وہ انھیں چالان کرے پنجاب پولیس جہاں بہت سارے معاملات میں پہلے ہی بدنام ہے اب اس ننگے چٹے جھوٹ کی وجہ سے بالکل بے نقاب ہو گئی ہے کہ یہ پولیس کی مرضی ہے وہ گھوڑے کو ہاتھی ڈیکلیر کر دے یا ہاتھی کو بکری باامر مجبوری قانون کی اختراع میں قبول کرنا ہو گا پولیس نے کچھ عرصہ سے لوگوں سے مدعی بننے کا حق بھی چھین لیا ہے اب پولیس کی مرضی ہے وہ جس مرضی کیس کی چاہے مدعی بن جائے حالانکہ قانون کے مطابق جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ خود یا اس کے والی وارث اس کے مدعی بن سکتے ہیں پولیس صرف اس واقعہ کی مدعی بن سکتی ہے جس میں کوئی مقدمہ درج کروانے کے لیے تیار نہ ہو یا جس کا کوئی وارث نہ مل رہا ہو اس کی وارث ریاست ہوتی ہے یہاں تو عجب کام ہوا ہے پولیس بیک وقت ظالم بھی ہے مظلوم بھی ہے اور تحقیقات کار بھی ہے شہباز انور کا شعر ہے۔

توقع کس سے پھر انصاف کی رکھے کوئی انور۔

جہاں قاتل ہی منصف ہو حکومت بھی اس کی ہو۔

ایسی صورتحال میں یہ دلیل بھی کیس ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔

قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی۔

مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر۔

حکمران جس بے دردی کے ساتھ اپنے عزائم کے لیے پولیس کو استعمال کر رہے ہیں معاشرے کو لاقانونیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے یہی اگر فرضی قصے کہانیوں پر مقدمات درج کرکے تنگ کرنے کی بجائے جو انھوں نے جرم کیا تھا اس پر بننے والی معمولی سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے انھیں سزا دلوائی جاتی تو اس کا اثر کچھ اور ہوتا لیکن اب نہ صرف قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے بلکہ ریاست کے ایکٹ پر بھی کئی سنگین سوالیہ نشان ابھر رہے ہیں اوپر سے ایک بار پھر پولیس مقابلوں کا رواج دوبارہ آگیا ہے پہلے تو یہ وباء صرف پنجاب تک تھی اب تو اسلام آباد جیسے کیپٹل میں بھی پولیس مقابلوں میں گرفتار بندے مارنے کا فیشن جگہ بنا چکا ہے یہی اگر ملزمان کو جرم ثابت کرکے انھیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں تو قانون کی حکمرانی کی رٹ مضبوط ہوگی لوگوں پر قانون کا خوف ہو گا اب پولیس کی تحویل میں مرنے والے ورکر کا مقدمہ اگر عمران خان پر درج ہو گا تو یہ قانون کا مذاق نہیں تو اور کیا ہو گا ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں صبح شام مقدمات درج کرکے کھینچا تانی کی جا رہی ہے ادھر طلبیوں کے نوٹسز اور گرفتاری کے وارنٹس کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ادھر ریلیف بھی مل جاتا ہے یہ سارا کچھ کیا ہو رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کو مصروف رکھنے کے لیے یہ سارا کچھ سٹیج کیا گیا ہو اور اندر کھاتے کچھ اور چل رہا ہو تاکہ لوگوں کی نظریں اس پر لگی رہیں اور اصل معاملہ کو پوشیدہ رکھ کر کچھ اور گل کھلائے جا رہے ہوں۔