یہ لندن میں میرا پہلا مشاعرہ تھا اس مشاعرے میں عاشور کاظمی، اطہر راز، منصور معجز، سجاد شمسی، بلبل کاشمیری، چمن لال چمن، اعجاز احمد اعجاز، رحمت قرنی اور شبانہ کاظمی کے علاؤہ اور بہت سے شاعر شریک تھے۔ اردو شاعری کے مداحوں سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ افتخار قیصر مجھے اس مشاعرے میں لے کر گئے تھے۔ یہ 1994ء کے آغاز کی بات ہے جب میں اپنا کلام سنا کرا سٹیج سے اترا تو ایک خاتون نے میری شاعری کی تعریف کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کسی ریڈیو پر اناؤنسر یا کمپیئر ہیں؟میں نے مسکرا کر سوال کا جواب سوال میں دیتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ آپ کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟ تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کے شعر پڑھنے کا انداز بہت ریڈیائی ہے۔ میں ان کی یہ بات سُن کر خوش ہوا اور سوچنے لگا کہ ریڈیو کی تربیت واقعی آواز کے استعمال کے علاؤہ الفاظ کی ادائیگی کا جو سلیقہ سکھاتی ہے وہ زندگی بھر انسان کے کام آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں طالبعلمی کے زمانے میں ریڈیو پاکستان بہاول پور میں اناؤنسر تھا تو اس وقت عقیل اشرف اسٹیشن ڈائریکٹر اور اکرم شاد پروگرام منیجر ہوا کرتے تھے۔ پروڈیوسرز میں نصر اللہ خان ناصر، ساجد درانی، شمس الدین حیدر، علی تنہا، جمیل اختر، بلبل یاسمین، رئیس سلیم اور نعیم شاہ بہت محنت اور لگن سے اپنے اپنے پروگرامز کو ترتیب دے کر براڈ کاسٹ کیا کرتے تھے۔جاوید اختر نیوز ایڈیٹر تھے اور شہود رضوی ڈیوٹی افسر کی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ شاہد حسن جسکانی مختلف پروگرامز کی آؤٹ ڈور ریکارڈنگ کے لئے ریڈیو بہاولپور کے چلتے پھرتے سفیر تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو سننے کا بہت رواج اور شوق تھا اور ریڈیو اسٹیشنز ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے لئے دلچسپی اور سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ فرمائشی نغموں اور گیتوں کے پروگرام میں سینکڑوں لوگ اپنا نام سننے کے لئے خطوط لکھا کرتے تھے۔ بہاو ل پور ریڈیو سے شعیب احمد، ارشد کمال، ایس ایم سلیم، شہناز حسن، اجمل ملک اور نوشابہ مہوش کی منفرد اور شاندار آوازوں کے ہزاروں لوگ مداح تھے۔ اِن آوازوں کو سُن کر لوگوں نے اپنے ذہن میں خیالی تصویریں بنارکھی تھیں۔ 90ء کی دہائی کے آغاز تک ریڈیو پاکستان ایک بہت مؤثر، پُروقار اور شاندار قومی اور تربیتی ادارہ تھا لیکن پھر دوسرے قومی اداروں کی طرح ریڈیو پاکستان بھی سیاسی زوال کی لپیٹ میں آ گیا۔ریڈیو پاکستان کے پروڈکشن بجٹ میں اضافے کی بجائے غیر ضروری سٹاف کا بوجھ اس ادارے پر لاد دیا گیا۔ اطلاعات و نشریات کا جو وزیر اور سیکرٹری آیا اس نے ہر اسٹیشن پر اپنے بندے بھرتی کروانے کو اولیت دی۔ فنکار پروری اور فنون لطیفہ کا فروغ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ نامور لوگوں نے ریڈیو سے ٹیلی ویژن کا رخ کر لیا۔ وہی ریڈیو اسٹیشن جو کبھی پُر رونق اور گہما گہمی کا مرکز ہوا کرتے تھے ویران ہونے لگے۔ ریڈیو پاکستان کے وسائل محدود ہو گئے۔ حکومتی ارباب اختیار نے ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ وہ ریڈیو جہاں ہر لفظ کی ادائیگی، تلفظ اور مناسبت کا خیال رکھا جاتا تھا اور ایک کٹھن تربیتی مرحلے کے بعد اناؤنسرز اور کمپیئرز کو لائیو آن ایئر ہونے کی اجازت ملتی تھی اور کوئی لفظ بھی لکھے ہوئے سکرپٹ یعنی مسودے کے علاؤہ نہیں بولا جا سکتا تھا۔ اب وہی ریڈیو پاکستان اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ وہی ریڈیو پاکستان جس نے پی ٹی وی کو تربیت یافتہ نیوز کاسٹرز، فنکار، صداکار اور رائٹرز فراہم کئے۔ آج اسی ریڈیو پاکستان کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور ہمارے مفاد پرست سیاستدان اور عاقبت نااندیش اربابِ اختیار اس اہم قومی ادارے کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کا قیام پاکستان کے ساتھ ہی عمل میں آیا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کا اعلان بھی 14اگست کی رات کو بارہ بجے ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا گیا تھا اور یہ اعزاز نامور براڈ کاسٹر مصطفی علی ہمدانی کو حاصل ہوا جنہوں نے سب سے پہلے اپنی پروقار آواز میں قیام پاکستان کی طلوع صبح آزادی کی خوشخبری سنائی۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کا آغاز کن حالات میں ہوا اور ابتداء میں اس ادارے کو کن حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس بارے میں زیڈ اے بخاری کی سوانح حیات سرگزشت کے چند اہم باب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ کسی ریڈیو اسٹیشن کی نشریات کو صرف محدود علاقے تک سُنا جا سکتا تھا لیکن پھر ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک ملک کی ریڈیو نشریات کو دوسرے ملکوں تک سننے کی سہولت فراہم کر دی۔ اس زمانے میں پاکستانی لوگ اپنے ملکی ریڈیو کے علاؤہ بی بی سی ریڈیو، ریڈیو سیلون اور وائس آف جرمنی کی اردو سروس کو بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ ذرائع ابلاغ کی جدید سہولتوں کی وجہ سے آج دنیا بھر میں کوئی بھی شخص کسی بھی ملک کی ریڈیو نشریات باآسانی سُن سکتا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے اگر ریڈیو کی نشریات سننا چھوڑ دی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پوری دنیا کے لوگ ریڈیو نہیں سنتے۔ آج بھی ہماری اس دنیا کے اربوں لوگ کل 44ہزار ریڈیو اسٹیشنز کے پروگرامز سے لطف اندوز اور خبروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ صرف یونائیٹڈ کنگڈم میں چھ سو لائسنس یافتہ ریڈیو اسٹیشنز ہیں اور اِن کے پروگرامز سننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ ریڈیو سننے کا رجحان پولینڈ کے لوگوں میں ہے جس کے بعد ساؤتھ افریقہ میں ریڈیو لسنرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ریڈیو سننے کے شوقین لوگوں میں جرمنی کا شمار تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یعنی ریڈیو پاکستان کے ملک بھر میں 31اسٹیشنز ہیں جہاں سے 34مختلف زبانوں میں پروگرام اور خبریں نشر کی جاتی ہیں جبکہ کمرشل لائسنس یافتہ 130ریڈیو اسٹیشنز اِ ن کے علاؤہ ہیں۔ پاکستان کے 92فیصد رقبے تک ریڈیو کی نشریات پہنچتی ہیں لیکن اس کے باوجود صرف 16فیصد لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار ریڈیو سنتے ہیں۔موجودہ حالات میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین اس ادارے کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد اُن ملازمین کی ہے جو اپنی تنخواہوں، واجبات اور پنشن کے لئے ارباب اختیار کے رحم و کرم پر ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب 1890ء میں پہلی بار الیکٹرو میگنیٹک ویوز کا مشاہدہ کیا گیا اور 1895ء میں (Gugliemo MARCONI)گگ لی ایمو مارکونی جو کہ اٹلی کے الیکٹرانک انجینئر تھے نے ایک وائرلیس پیغام کامیابی سے ریڈیو ویوز کے ذریعے ایک کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچایا تویہ اس انقلاب کی ابتداء تھی جس کے ثمرات آج ہم اپنی جدید دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ وائرلیس اور ریڈیو کا یہی نظام آگے چل کر ٹیلی ویژن، وائرلیس فون اور سمارٹ فونز کی ٹیکنالوجی کی بنیاد ثابت ہوا۔ ایک لمحے کے لئے غور کیجئے کہ اگر ہماری اس دنیا کوایسے سائنسدان اور اہل علم میسر نہ آتے جنہوں نے اس کائنات کے اسرار و رموز پر غور کیا اور نئی سے نئی ایجادات کیں تو ہماری آج کی یہ دنیا ہر طرح کی سہولتوں اور آسائشوں سے عاری ہوتی۔ ریڈیو کی ایجاد بھی ایک ایسا ہی کارنامہ تھی جس نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور اس ایجاد نے دیگر ایجادات کے رستوں کو بھی ہموار کیا۔ عقلمند لوگ اور سمجھدار اقوام سورج نکلنے پر اپنے چراغ اور موم بتی کو ضائع نہیں کرتے بلکہ اُنہیں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ انہیں بوقت ضرورت کام میں لایا جا سکے۔ جدید ٹیکنالوجی کے سیلاب کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے ریڈیو پاکستان کو ایک بے کار اور غیر مؤثر ادارہ سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اس قومی ادارے نے کئی دہائیوں تک عوام کے دلوں پر حکمرانی ہی نہیں کی بلکہ حکومتوں کی ترجمانی بھی کی ہے۔ ریڈیو پاکستان ہماری قومی شناخت ہے۔ یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس کے وسائل میں اضافہ کر کے اسے پھر سے بہت مؤثر اور مفید بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کا ہر تاریخی حوالہ بہت ہی شاندار ہے جس نے ہر مشکل وقت میں ملک و قوم کی نظریاتی اور فکری سرحدوں کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس ادارے سے ایسی ایسی قد آور اور پُر وقار شخصیات وابستہ رہی ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے استحکام پاکستان کے سفر میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے ریڈیو پاکستان کا نام روشن اور معتبر کیا۔ ریڈیو پاکستان قوم کا سرمایہ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اُن مفاد پرست سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہے جنہیں ابتداء سے ہی ہر طرح کے قومی سرمائے کو خرد برد کرنے کی عادت ہے۔
٭٭٭٭
224