Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
157

آئی ایم ایف سے درخواست

آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آج کل پاکستان آیا ہوا ہے اور ہماری خوب کلاس ہو رہی ہے چن چن کر ہماری غلطیاں کوتاہیاں بیان کی جا رہی ہیں اور مستقبل کی راہ دکھانے کے لیے ہمیں سبق پڑھایا جا رہا ہے بجلی،پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مجبوری قرار دیا جا رہا ہے ساتھ ہی مزید ٹیکسیشن کی ہدایت کی جا رہی ہے حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس ملک کے عوام میں مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے کم کمائی کر رہے ہیں اور ریاست کو زندہ رکھنے کے لیے زیادہ تگ ودو کر رہے ہیں مثال کے طور پر ان کے کھانے پینے کا بجٹ کم ہے جبکہ آنے جانے بجلی گیس اور ٹیکسوں کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں کا بوجھ زیادہ ہے پچھلی گرمیوں میں میرے پاس ایک خاتون آئی اور کہنے لگی کہ آپ میڈیا میں ہیں آپ ہماری آواز ارباب اختیار تک پہنچائیں کہ میں 13 ہزار کے کرائے کے ایک کمرے میں رہتی ہوں جبکہ مجھے بجلی کا بل 18 ہزار آگیا ہے ہم اپنے بچوں کے لیے کمائیں یا بجلی کا بل دینے کے لیے کمائیں مجھے خوف آرہا ہے کہ اس سال جب گرمیوں میں بجلی کے بل کے ساتھ گیس کا بل بھی پہلے سے ڈبل آئے گا کھانے پینے کی اشیاء میں میں بھی 50 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہو گا اور روزگار کے مواقع بھی سکڑ جائیں گے تو عام آدمی کا کیا بنے گا وہ کس کی ماں کو ماسی کہے گا کیا پاکستان میں کوئی ایسا فارمولا نہیں اپنایا جاسکتا کہ امیروں کے لیے ٹیکسز کی شرح کچھ اور ہونی چاہیے اور غریبوں کے لیے کچھ اور ہونی چاہیے اب امیر بھی پٹرول 250 روپے لیٹر خرید رہا ہے اور غریب بھی اسی ریٹ سے خرید رہا ہے امیر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس دے رہا ہے اور غریب بھی 17 فیصد ٹیکس دے رہا ہے غریبوں کے لیے سبسڈائز ریٹ پر چیزیں ملنی چاہیں جس کی جتنی قوت خرید ہے اس پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہیے اللہ بھی فرماتے ہیں کہ کسی انسان پر اس کی اسطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا لیکن ہماری حکومتیں غریبوں پر اتنا بوجھ ڈال چکی ہیں کہ اس بوجھ سے ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے حکمران اور صاحب حیثیت طبقہ کسی قربانی کے لیے تیار نہیں لیکن غریب آدمی سے کہا جاتا ہے کہ ملک کے حالات خراب ہیں آپ قربانی دیں حکمرانوں اور انتظامیہ کے اللے تللے اسی طرح جاری ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے سرکاری افسروں کے پاس کئی کئی سرکاری گاڑیاں اور مختلف مدوں میں لامحدود پٹرول موجود ہے 77 رکنی کابینہ کے ہر وزیر کے پاس کئی کئی گاڑیاں ہیں بلکہ ان کے سٹاف کے پاس بھی گاڑیاں ہیں اوپر سے ان کی نقل وحمل کے لیے سرکاری پروٹوکول اس پروٹوکول کے لیے سرکاری گاڑیاں نفری سب عوام کے ٹیکسوں پر عیاشی کر رہے ہیں کسی ایک کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان نامساعد حالات میں کہے کہ ملک کو ضرورت ہے اور ہم اپنی مراعات میں سے آدھی مراعات وڈرا کرتے ہیں آدھا سٹاف کم کر دیتے ہیں پٹرول اور گاڑیاں کم کر دیتے ہیں جب تک پاکستان کے حکمران بیورو کریسی اور اشرافیہ اپنے آپ کو رول ماڈل نہیں بناتی اس وقت تک کوئی بہتری نہیں آسکتی آج عام آدمی نہ صرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے اضافی محنت کر رہا ہے بلکہ اس ملک کے بابوں کو بھی پالنے کا اہتمام کر رہا ہے البتہ ایک چیز جان کر خوشی ہوئی کہ آئی ایم ایف نے گریڈ 17 سے اوپر کے تمام افسروں کے اثاثے ڈیکلیر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے آئی ایم ایف سے پاکستان کی عوام کی ایک درخواست ہے کہ براہ کرم آپ پاکستانیوں پر ایک احسان کر دیں آپ قرض دینے کے لیے ایک شرط رکھ دیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی جتنی دولت بیرون ملک سے وطن واپس لے کر آئیں گے اسی تناسب سے پاکستان کو قرض دیا جائے گا یا جب تک پاکستانی سیاستدان اپنی دولت پاکستان واپس نہیں لاتے اس وقت تک پاکستان کو قرض نہیں ملے گا کیونکہ یہ وہ پیسہ ہے جو قرض لے کر عوام پر لگانے کی بجائے بیرون ملک ٹرانسفر ہوتا رہا ہے