414

دیامر بھاشہ ڈیم میں واپڈ کی موجودہ قیادت کا کردار

دیامر بھاشہ ڈیم کی تجویز سب سے پہلے 1980 میں زیر غور آئی تھی، پہلی مرتبہ فزیبلیٹی رپوٹ مشرف کے دور میں 2004 میں تیار کی گئی اور 2008 میں دقباری فزبیلٹی اور ڈیزائن پر کام مکمل ہوا۔ یہ واحد ڈیم ہے جو غیر متازعہ ہے تاہم کچھ سندھی قوم پرستوں کا اس پر بھی اعتراض ہوا تھا لیکن وہ اتنا موثر نہیں ہوسکا۔ دیامر بھاشہ ڈیم کا پہلی بار افتتاح 1998 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کیا بعد میں 2006 میں صدر پاکستان پرویز مشرف نے افتتاح کیا بعد میّ وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی افتتاح کیا پھر 2009 میں یوسف رضا گیلانی نے کیا بعد میں پھر نواز شریف نے افتتاح کیا اور آخری بار وزیراعظم عمران خان نے ڈیم سائٹ کا دورہ کیا جس کے بعد ڈیم سائٹ میں عملی کام بھی شروع ہوا اور مختلف تعمیراتی کمپنیوں پاور چائنہ ایف ڈبیلیو او جوائنٹ وینچر سمیت دوسری کمپنیوں کو باقائدہ کام کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جس کے بعد کام میں تیزی آگئی ہے۔

ڈیم کا محل وقوع

پاکستان کے شمالی علاقہ گلگت بلتستان چلاس اور خیبرپختنواہ کے علاقہ بھاشہ میں تعمیر ہوگا. زیادہ حصہ گلگت بلتستان اور کچھ حصہ کوہستان کا علاقہ بھاشہ زیر آب آئے گا۔ دیامر بھاشہ ڈیم دریائے سندہ پر تعمیر کیا جارہا ہے گلگت بلتستام کے ہیڈ کوارٹر گلگت سے 165 کلومیٹر دور اور ضلع دیامر کا ہیڈ کوارٹر چلاس سے 40 کلومیٹر دور دریائے سندہ کے نچلی طرف ہوگی۔

ڈیم کے فوائد

دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان میں معاشی انقلاب آئے گا سب سے پہلا سب سے بڑا بحران توانائی کے شعبے میں پاکستان خودکفیل ہوگا اور ساتھ یہی پانی زراعت کے لئے بھی استعمال ہوگا کیونکہ لاکھوں کیوبک پانی یہاں زخیرہ ہوگا جو زراعت کے لئے استعمال ہوگا۔ منصوبے سے 16ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی اور نیشنل گرڈ کوسالانہ 18 ارب 10 کروڑ یونٹ پن بجلی ملے گی، ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے گا جب کہ قومی خزانے کو 290 ارب کا فائدہ ہوگا اور پاکستان کے شہریوں کو سستی بجلی مل سکے گی۔

واپڈا کی موجودہ قیادت

پاکستان میں چھوٹے بڑے تمام ڈیم واپڈا بناتی ہے اور واپڈا وفاقی خود مختار ادارہ ہے واپڈا کی موجودہ قیادت اس وقت مکمل تندہی سے میگا پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کئے ہوئیں ہے۔ چئیرمین واپڈا جنرل (ر) سید مزمل حسین صاحب اور جنرل منیجر واپڈا بریگیڈیر شعیب صاحب اور جی ایم پروجیکٹ ڈائریکٹر جناب راؤ یوسف کی قیادت میں اس وقت پہلی بار پاکستانی عوام امید پیدا ہوئی ہے کہ 60 کی دہائی کے بعد اب نئی ڈیم کی تعمیر مکمل ہوسکے گی۔

جی ایم پروجیکٹ ڈائریکٹر راؤ یوسف صاحب نے گرونڈ پے عملی کا آغاز جس تیزی سے کرایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

انہوں نے دن رات پروجیکٹ کے لئے کام کیا اور بہترین سپرویژن کی جس سے نہ صرف عملی کام میں تیزی آئی بلکہ پراجیکٹ کی تکمیل کا امید بھی پیدا ہوئی ایسے باصلاحیت ایماندار آفسیران بہت کم ہوتے ہے جو اپنے ادارے کے ساتھ اس قدر کمٹمنٹ سے جڑے رہتے ہیں اور اپنے فرض کی ادائیگی سے بھڑھ کرکام کرتے ہیں، یہاں جی ایم واپڈا شعیب صاحب کا زکر کرنا اسلئے ضروری ہے کہ جب دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگی تو تاریخ میں جی ایم واپڈا شعیب تقی صاحب کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا انہوں نے جس جانفشانی سے کام کیا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

دیامر بھاشہ ڈیم کے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ صدیوں سے قبائلی تنازعات تھے جسے بریگیڈیر ریٹائرد شعیب تقی صاحب کی قائدانہ صلاحتیوں کی بدولت آسانی سے افہام و تفہیم سے حل کیا گیا، صرف یہی نہیں ڈیم کے حوالے سے جو بھی رکاوٹ/مسائل آئی شعیب تقی صاحب نہ صرف وہاں پہنچے بلکہ مسائل حل بھی کیا ہے، گریجویٹ الائنس دیامر کی مقامی طلباء کی تنظیم نے جہنوں نے دیامر بھاشہ ڈیم میں مقامی نوجوانوں کی ڈیم میں نوکریوں کے لئے آواز اٹھائی جس پر شعیب تقی صاحب نے کھلے دل سے ان کے تمام مطالبات تسلیم کرکے پورے گلگت بلتستان والوں کا دل جیت لیا ہے۔بعد ازاں ری سیٹلمنٹ’ میں کچھ مسائل آئیں تو شعیب تقی صاحب بذات خود چلاس تشریف لائیں اور عوام سے خود سن کر موقعے پر احکامات جاری کی اور ری سیٹلمنٹ’ پکیج سے محروم رہنے والے متاثرین کو بھی یقین دہانی کرائی جس سے متاثرین میں خوشی کی لہر ڈار گئ متاثرین نے نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ جھولی بھر کے دعائیں بھی دیں، کاش پاکستان کے ہر ادارے میں شعیب تقی جیسے ماہر قابل اور محنتی آفیسر ہوتے جو اپنے ادارے کی دن دگنی رات چگنی ترقی کا سبب بن جاتے ہیں۔