Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
384

سانتا کلاز کے ویلج سے

ترکی کے صوبے اناطولیہ میں ایک چھوٹا سا ٹاﺅن ہوتا تھا مائیرا‘ ٹاﺅن کے لوگ یونانی عیسائی تھے‘ آبادی کے عین درمیان چھوٹا سا چرچ تھا‘ چوتھی صدی عیسوی میں اس چرچ میں سینٹ نیکولس نام کا ایک بشپ ہوتا تھا‘ وہ دراز قد تھا‘ داڑھی لمبی اور سفید تھی اور وہ ہو‘ ہو‘ ہو کی آواز میں قہقہہ لگاتا تھا‘ بشپ بچوں میں بہت مشہور تھا‘ وہ سارا سارا دن بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا‘ کرسمس کے موقع پر وہ ایک دل چسپ کام کرتا تھا‘ وہ ٹافیاں‘ لکڑی کے کھلونے اور جوتے بناتا تھا‘ پیک کرتا تھا اور یہ تحفے 24 اور 25 دسمبر کی درمیانی رات گاﺅں کے مختلف درختوں پر باندھ آتا تھا۔

یہ پیکٹ غریب کے بچوں کے لیے کرسمس گفٹ ہوتے تھے‘لوگ سینٹ نیکولس کو سانتا کہتے تھے‘ سانتا کے تحائف کی یہ روایت آہستہ آہستہ پوری عیسائی دنیا میں پھیل گئی اور دنیا بھر کے چرچز نے بچوں کو سانتا کے تحفے دینا شروع کر دیے لہٰذا آج کرسمس ٹری‘ سانتا کے تحائف‘ ابلتی ہوئی وائین اور ٹرکی کا گوشت یہ چاروں کرسمس کا لازمی حصہ بن چکے ہیں‘ سانتا (سینٹ نیکولس) مائیرا کے بچوں کو تحائف کی ایک سٹوری بھی سناتا تھا‘ اس کا کہنا تھا قطب شمالی میں جہاں ہر وقت برفیں رہتی ہیں وہاں اصل سانتا رہتے ہیں‘ ان کی داڑھی سفید اور لمبی ہوتی ہے‘ سر پر سرخ پھندے والی سفید ٹوپی پہن رکھی ہوتی ہے‘ وہ سرخ گاﺅن میں ملبوس ہوتے ہیں‘ کمر پر سیاہ رنگ کی بیلٹ ہوتی ہے اور چمڑے کے بڑے بڑے جوتے پہن رکھے ہوتے ہیں‘ وہ اپنی ورکشاپ میں سارا سال بچوں کے لیے کھلونے بناتے ہیں اور پھر 24 دسمبر کی رات رین ڈیئر پر بیٹھ کر مائیرا آتے ہیں اور بچوں کے لیے تحفے چھوڑ جاتے ہیں‘ سینٹ نیکولس بچوں کو خوش کرنے کے لیے خود بھی سانتا بن جاتا تھا اور بچے کرسمس کے دن اس کے ساتھ کھیلتے تھے‘ سینٹ نیکولس کا انتقال ہو گیا تو اسے چرچ میں دفن کر دیا گیا‘ 1087ءمیں مائیرا کو مسلمانوں نے فتح کر لیا‘ سینٹ نیکولس مشہور تھا چناں چہ عیسائی تاجر اس کی ہڈیاں نکال کر لے گئے‘ اٹلی میں باری شہر میں چرچ بنایا گیا اور سینٹ نیکولس کی ہڈیاں وہاں دفن کر دی گئیں‘ ہڈیوں کا کچھ حصہ بعد ازاں وینس میں بھی شفٹ کر دیا گیا‘ 1923ءمیں مائیرا ترکی کے حصے آ گیا‘ ترکی نے مائیرا کے عیسائی یونان کے حوالے کر دیے اور یونان سے مسلمان لے لیے جس کے بعد سینٹ نیکولس کا چرچ ختم ہو گیا‘ مائیرا کا نام آج کل ڈیمرے ہے۔

میں نے سینٹ نیکولس کی یہ کہانی مصر میں کوہ طور کے دامن میں واقع سینٹ کیتھرائن میں سنی تھی‘ سینٹ کیتھرائن دنیا کا واحد چرچ ہے جس میں سینٹ نیکولس کی پینٹنگ موجود ہے‘ میں نے یہ تصویر دیکھی‘ یہ کہانی سنی اور سانتا کلاز کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور چلتا چلتا 20 فروری 2020ءکو فن لینڈ پہنچ گیا‘سانتا کلاز اور فن لینڈ کے درمیان دل چسپ تعلق ہے‘ پوری دنیا میں بچوں کو بتایا جاتا ہے سانتا کلاز قطب شمالی میں رہتا ہے اور یہ 24 دسمبر کی رات رین ڈیئر پر بیٹھ کر تحفے لے کر بچوں کے گھروں میں آتا ہے۔

فن لینڈ کے بچے اس کہانی کو اصل سمجھتے تھے چناں چہ یہ والدین سے سانتا کلاز کے گھر جانے کی ضد کرتے تھے‘ یہ ضد حکومت تک پہنچی اور حکومت نے کمال کر دیا‘ اس نے قطب شمالی پر سانتا کلاز کا پورا گاﺅں آباد کر دیا‘ یہ گاﺅں سانتا کلاز ویلج کہلاتا ہے‘ گاﺅں 1985ءمیں کھلا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے بچوں کا قبلہ بن گیا‘ دنیا کے 199 ملکوں سے دو کروڑ بچے سانتا کو خط لکھتے ہیں اور یہ خط مختلف ڈاک خانوں سے ہوتے ہوئے سانتا کے ٹاﺅن پہنچ جاتے ہیں۔

نومبر اور دسمبر میں سانتا کو روزانہ ساڑھے تین ہزار خط موصول ہوتے ہیں‘ دنیا بھر سے بچے سانتا کے ٹاﺅن بھی آتے ہیں‘ ٹاﺅن فن لینڈ کے شہر رووا نیامی  کے مضافات میں واقع ہے‘ مسافروں کو وہاں پہنچنے کے لیے ہیلسنکی سے اولو کی سوا گھنٹے کی فلائیٹ لینی پڑتی ہے اور پھر اولو سے رووا نیامی تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ سانتا ٹاﺅن قطب شمالی کے دائرے آرکٹیک سرکل پر آتا ہے‘ یہاں پر لوہے کے دو ستون ہیں‘ آپ جوں ہی ستونوں کے اندر داخل ہوتے ہیں آپ قطب شمالی میں داخل ہو جاتے ہیں۔

ٹاﺅن میں سانتا کلاز کا گھر‘ دفتر‘ ڈاک خانے‘ ڈائننگ ہال اور پلے ایریاز ہیں‘ بچے آتے ہیں‘ سانتا سے ملتے ہیں‘ تصویریں بناتے ہیں اور آرکائیو میں اپنے خط دیکھتے ہیں‘ یہ ڈاک خانے میں سانتا کی طرف سے اپنے نام خط بھی پوسٹ کرتے ہیں اور یہ خط ان کے واپس پہنچنے سے پہلے پہلے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے‘ ٹاﺅن میں سانتا کے محل‘ کافی شاپس اور ریستوران بھی ہیں اور سوونیئر شاپس بھی اور اس کے ہسکی کتوں اور رین ڈیئر کے فارم بھی۔

ہم جمعہ کے دن ساڑھے بارہ بجے سانتا کلاز کے ٹاﺅن میں پہنچے‘ راستے میں شدید برف باری ہو رہی تھی‘ درجہ حرارت منفی 15 سینٹی گریڈ تھا‘ جھیلیں اور دریا منجمد تھے اور ان پر لوگ اور سکوٹر چل رہے تھے‘ سانتا ٹاﺅن بھی برف میں دفن تھا‘ زمین اور آسمان دونوں طرف صرف اور صرف برف ہی برف تھی اور ہم اس برف میں راستے بناتے ہوئے سانتا کے گھر پہنچ گئے‘ ہم غالباً یہاں پہنچنے والے پہلے پاکستانی تھے لہٰذا سانتا ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا‘ وہ دیر تک قہقہے بھی لگاتا رہا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتا رہا۔

ہم نے اس کے ساتھ تصویر بنوائی اور آرکٹیک سرکل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ سامنے سرخ رنگ کے دو ستون تھے‘ لوگ برستی برف میں ستونوں کے درمیان کھڑے ہو کر تصویریں بنوا رہے تھے‘ آرکٹیک سرکل کے بارے میں کہتے ہیں اس کی دوسری طرف خوشیاں اور پہلی طرف غم ہیں‘ آپ اگر سولائزیشن کی طرف کھڑے ہیں تو آپ دکھی ہیں اور آپ جوں ہی لائین کراس کر کے قطب شمالی میں داخل ہو جاتے ہیں تو آپ خوش ہو جاتے ہیں‘ ہم بھی خوشی کے دائرے میں داخل ہو گئے اور دیر تک بلاوجہ قہقہے لگاتے رہے۔

ہم اس کے بعد ہسکی کتوں کی گاڑیوں کی طرف چلے گئے‘ ہسکی بھیڑیے کی نسل کے کتے ہوتے ہیں‘ یہ شدید سرد موسم کے جانور ہیں‘ یہ لوگ بارہ بارہ ہسکی کتوں کو گاڑی کے آگے جوت دیتے ہیں اور کتے تین چار لوگوں کو گھسیٹ کر جنگل میں لے جاتے ہیں‘ گاڑیاں سلیج کہلاتی ہیں ‘ہسکی ڈرائیو لائف ٹائم تجربہ ہوتی ہے‘اللہ اگر موقع دے تو انسان کو ایک بار یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے‘ ہم نے بھی یہ تجربہ کیا‘ کتے ہمیں گھسیٹ کر جنگل میں لے گئے‘ وہاں برف‘ کتوں کی آوازوں اور خوف کے سوا کچھ نہیں تھا۔

قطب شمالی کے لوگ کم زور کتوں کو آگے اور مضبوط کو پیچھے جوتتے ہیں‘ گاڑی کے ساتھ مضبوط کتے ہوتے ہیں اور آگے کم زور‘ ڈرائیور مخصوص آوازیں نکالتا ہے اور کتے اٹھ کر دوڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ آخر میں منہ سے پچ پچ کی آوازیں نکالتا ہے اور کتے رک جاتے ہیں‘ ٹاﺅن میں ڈیڑھ سو کتے اور چار گاڑیاں تھیں‘ ہم ہسکی ڈرائیو کے بعد رین ڈیئر کے فارم ہاﺅس پر پہنچے لیکن وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے بند ہو چکا تھا لہٰذا ہم رین ڈیئر کی سواری نہ کر سکے تاہم ہم نے جی بھر کر رین ڈیئر دیکھ لیا‘ میں فن لینڈ سے رین ڈیئر کی کھال بھی لے کر آیا ہوں‘ یہ میں ان شاءاللہ اپنے ڈرائنگ روم میں بچھاﺅں گا اور فن لینڈ کو یاد کروں گا۔

سانتا کلاز ویلج کی شام اداس اور ٹھنڈی تھی‘ پورا شہر برف میں دبا ہوا تھا‘ آسمان کے سرے کھل چکے تھے‘ آسمان سے دھڑادھڑ برف برس رہی تھی‘ ہمیں چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے تھے‘ اس ماحول میں ہسکی کتوں کی آوازیں تھیں ‘ رین ڈیئرز کی چنگاڑیں تھیں اور سانتا کلاز کی ہو‘ ہو‘ہو تھی‘ ہمارے سامنے تاحد نظر روئی بچھی ہوئی تھی اور ہم لانگ شوز پہن کر اس روئی پر چل رہے تھے‘ ہمارے پاﺅں کے نیچے برف کی کڑچ کڑچ تھی‘ فضا میں سکوت تھا۔

اس سکوت کو ہسکی کتوں کی آوازیں آلودہ کر رہی تھیں اور ہسکز کی آوازوں کے درمیان بچوں کی کلکاریاں تھیں‘ یہ سانتا کلاز کو دیکھ کر بے اختیار کلکاری بھرتے تھے اور دوڑ کر اس کی گود میں چڑھ جاتے تھے‘ ہم سانتا کے قلعوں کے درمیان کھڑے تھے‘ بچے اور سانتا قلعے میں تھے لیکن ان کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونج رہی تھیں‘ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں؟ میں نے برف میں رک کر اپنے آپ سے پوچھا‘ میرے رکنے کے ساتھ ہی ساری آوازیں تھم گئیں‘ مجھے پتا چلا یہ آوازیں باہر نہیں ہیں۔

یہ میرے اندر ہیں‘ میرے اندر کا بچہ بھی کلکاریاں بھر رہا تھا‘ وہ مسلمان ہونے کے باوجود سانتا کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا‘ وہ بھی قہقہے لگا رہا تھا اور وہ بھی تحفے کے لالچ میں بار بار سانتا کلاز کے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا‘ بچے بہرحال بچے ہوتے ہیں‘ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان ہوں یاوہ پانچ سال کے ہوں یا پھر پچاس سال کے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں